پاکستان کی عدالت عظمٰی نے رواں ماہ صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع مردان میں جنسی زیادتی کے بعد قتل کی گئی چار سالہ بچی اسما کے معاملے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے صوبائی پولیس کے سربراہ سے 24 گھنٹوں میں رپورٹ طلب کی ہے۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار کی طرف سے جمعے کو از خود نوٹس اس کی فرانزک رپورٹ کے آنے کے بعد لیا، جس میں کہا گیا کہ مردان میں کم عمر لڑکی کو قتل کرنے سے قبل جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔
واضح رہے کہ مردان سے لاپتا ہونے والی کم عمر بچی اسما کی نعش 14 جنوری کو اُس کے گھر کے قریب گنے کے کھیت سے ملی تھی۔
اسما کے والدین کا گھر مردان کے قریبی علاقے گوجر گڑھی میں ہے اور ابتدا میں اسے اغوا کے بعد قتل کا واقعہ بیان کیا گیا لیکن بعد میں ایک طبی رپورٹ کے بعد ضلعی عہدیداروں نے کہا کہ ایسے اشارے ملے ہیں کہ کم عمر بچی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
اس معاملے کی مزید تفتیش کے لیے بچی کے جسم سے لیے گئے نمونے ’ڈی این اے‘ ٹیسٹ کے لیے پنجاب میں قائم فرانزک سائنس لائباٹری بجھوا دیئے گئے، جس کی رپورٹ میں تصدیق کی گئی کہ اسما کو قتل سے قبل جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔
واضح رہے کہ اسی ماہ پنجاب کے ضلع قصور میں سات سالہ لڑکی زینب کو بھی جنسی زیادتی کے بعد قتل کر کے کچرے کے ایک ڈھیر کے قریب پھینک دیا گیا تھا۔
اس معاملے پر بھی عدالت عظمیٰ نے نوٹس لیا تھا اور رواں ہفتے ہی پنجاب حکومت نے زینب کے قتل کے ملزم کو گرفتار کرنے کا اعلان کیا تھا۔
پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے جمعرات کو مردان کا دورہ کیا تاکہ اسما کے قتل کی تفتیش کی پیش رفت کا جائزہ لیا جا سکے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کی چیئرپرسن سینیٹر نسرین جلیل نے کہا کہ ایسے واقعات کو روکنے کے لیے تمام اداروں کو مل کر موثر اقدامات کرنے چاہیئں۔
’’ہمارے آنے والے بچوں کا مستقبل دباؤ پر لگا ہوا، ایسے جو کیس سامنے آئے ہیں ہمیں ایک آگاہی مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ والدین اور بچوں کو بھی بتانا ضروری ہے کہ کیا کیا خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔‘‘
واضح رہے کہ تاحال اسما سے جنسی زیادتی اور قتل میں ملوث کسی ملزم کو گرفتار نہیں کیا جا سکا ہے، لیکن 2018 کے پہلے ہی مہینے میں ملک کے دو مختلف صوبوں میں کم عمر بچیوں کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کرنے کے واقعات کے بعد غم و غصے کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ یہ مطالبات بھی سامنے آئے ہیں کہ ایسے واقعات کی روک تھام اور ان میں ملوث افراد کو سزا دلوانے کے لیے نظام میں پائی جانے والی خامیوں کو فوری طور پر دور کیا جائے۔