رسائی کے لنکس

پشاور اسکول حملہ، دو مجرموں کی سزائے موت پر عمل درآمد معطل


سپریم کورٹ
سپریم کورٹ

درخواستوں میں موقف اختیار کیا تھا کہ فوجی عدالتوں میں ان مجرموں کے مقدمات کی سماعت کے لیے نہ تو انھیں اپنی مرضی کے وکیل سے استفادہ کرنے کی اجازت دی گئی

پاکستان کی سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کی طرف سے سزائے موت پانے والے چار مجرموں کی سزاؤں پر حکم امتناع جاری کر دیا ہے۔

ان مجرموں میں تاج محمد اور علی رحمان نے پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر ہوئے دہشت گرد حملے میں سہولت کار کا کردار ادا کیا تھا جبکہ محمد عمران سکیورٹی فورسز کی ایک چوکی اور قاری زبیر نوشہرہ میں ایک مسجد پر حملے میں ملوث تھے۔

منگل کو عدالت عظمیٰ کے جج دوست محمد کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے مجرمان کی طرف سے دائر درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے سزاؤں پر عملدرآمد ملتوی کرنے کا حکم دیا۔

مجرموں کے وکلاء نے درخواستوں میں موقف اختیار کیا تھا کہ فوجی عدالتوں میں ان کے مقدمات کی سماعت کے لیے نہ تو انھیں اپنی مرضی کے وکیل سے استفادہ کرنے کی اجازت دی گئی اور ہی سزاؤں پر فیصلے کا کوئی ریکارڈ فراہم کیا گیا۔

عدالت عظمیٰ نے فوجی عدالت کے فیصلے پر حکم امتناع دیتے ہوئے اٹارنی جنرل اور فوج کی قانونی شعبے "جیگ برانچ" کو نوٹسز جاری کیے۔

مقدمے کی آئندہ سماعت 16 فروری کو ہوگی۔

16 دسمبر 2014ء کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر طالبان کے حملے میں 120 سے زائد بچوں سمیت 150 افراد ہلاک ہوگئے تھے جس کے بعد ملک میں پھانسیوں پر عائد پابندی ختم کرنے کے علاوہ آئین میں ترمیم کر کے دو سال کے لیے فوجی عدالتیں قائم کی گئیں جن میں دہشت گردی کے مقدمات کی سماعت شروع کی گئی۔

پاکستانی فوج کے مطابق آرمی پبلک اسکول حملے میں ملوث نو دہشت گرد موقع پر مارے گئے تھے جب کہ ان کے 12 سہولت کاروں اور معاونین کو گرفتار کیا گیا تھا۔

اسکول پر حملے میں ملوث چار دہشت گردوں کو فوجی عدالتوں کی طرف سے دی گئی سزائے موت کے بعد گزشتہ دسمبر میں تختہ دار پر لٹکایا جا چکا ہے۔

منگل کو جن مجرموں کی سزاؤں پر حکم امتناع جاری کیا گیا انھوں نے اس سے قبل اپنی سزاؤں کے خلاف پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا جس نے انھیں مسترد کر دیا تھا۔

فوجی عدالتوں کے قیام پر انسانی حقوق اور وکلا کی بڑی تنظیموں نے تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ملک میں متوازی نظام قانون کے مترادف ہے جب کہ ان میں چلائے جانے والے مقدمات کی شفافیت پر بھی کئی سوالیہ نشان کھڑے ہوتے ہیں۔

تاہم فوج کی طرف سے یہ کہا گیا تھا کہ ان عدالتوں میں مقدمات کی سماعت کے دوران ملزمان کو صفائی کا پورا موقع دیا جاتا ہے اور بعد میں مجرم اپنی سزا کے خلاف اپیل کا حق بھی رکھتا ہے۔

حکومت فوجی عدالتوں کے قیام کا یہ کہہ کر دفاع کرتی آئی ہے کہ ملک کو درپیش غیر معمولی حالات میں یہ فیصلہ ناگزیر تھا اور یہ عدالتیں صرف دو سال کے عرصے کے لیے قائم کی گئی ہیں جن میں صرف دہشت گردی سے متعلق مقدمات کی سماعت ہوگی تاکہ ایسے مقدمات پر قانونی کارروائی جلد از جلد قانونی طریقے سے مکمل ہو سکے۔

XS
SM
MD
LG