پاکستان کی سپریم کورٹ نے سندھ کے ضلع تھرپارکر میں غذائی قلت اور صحت کی ناقص صورتحال سے بچوں کی ہلاکت پر صوبائی محکمہٴ صحت کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لئے تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔
سپریم کورٹ کی کراچی رجسٹری میں سندھ کے صحرائی ضلع تھرپارکر میں بچوں کی ہلاکت پر از خود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
دوران سماعت، چیف جسٹس نے سندھ میں گزشتہ دس سال برسراقتدار رہنے والی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی سابقہ صوبائی حکومت کی کارکردگی پر شدید اظہار برہمی کیا۔ عدالت نے ریمارکس دئیے کہ ’’پرائیویٹ ادارے کی رپورٹ کے مطابق بچوں کی اموات حکومتی غفلت کے باعث ہوئی۔ صوبے میں گورننس نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے‘‘۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’’سابق وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کی کارکردگی ہے ہی کیا کہ وہ اگلے الیکشن کےلئے بھی تیاری کررہے ہیں؟ سندھ اور دیگر صوبوں کی کارکردگی میں واضح فرق نظر آتا ہے‘‘۔
دوران سماعت سیکرٹری صحت فضل اللہ پیچوہو نے عدالت کے سامنے مؤقف اپنایا کہ کوئی ان کی بات سننے کو تیار نہیں۔ وہ اکیلے کیا کر سکتے ہیں۔ ڈاکٹرز ضلع تھرپارکر میں جاکر ڈیوٹی دینے کا تیار ہی نہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’’سندھ حکومت سے اوپر کون ہے؟‘‘۔ چیف جسٹس نے سابق صدر آصف علی زرداری کا نام لئے بغیر کہا کہ ’’صوبے کے سب سے بڑے سے تو آپ کی رشتہ داری ہے۔ کیا انہیں یہ صورتحال بتائی ہے؟‘‘
عدالت میں موجود ایک شہری نے مؤقف اپنایا کہ ان کے بچے ’’غیر معیاری ویکسین لگانے سے مرے‘‘۔ عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’کیا یہ متاثرین اب آپ کی نااہلی پر دعویٰ داخل اور انصاف کے لیے مزید دو نسلوں کا انتظار کریں؟‘‘
عدالت نے ایڈیشنل آئی جی محکمہٴ انسداد دہشت گردی، ثناءاللہ عباسی کی سربراہی میں محکمہ صحت کی مبینہ نااہلی پر تحقیقاتی کمیشن تشکیل دے دیا ہے۔ عدالت نے کمیشن کو تحقیقات 2 ہفتوں میں مکمل کرنے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے اپنے حکم میں صوبائی پبلک سروس کمیشن کو فوری طور پر مزید ڈاکٹر اور عملہ کی بھرتی کا بھی حکم دیا ہے۔
ضلع تھرپارکر سندھ کا سب سے بڑا اور ملک کے پسماندہ ترین ضلعوں میں شمار ہوتا ہے، جہاں صحت کی انتہائی کم سہولیات، غذائی قلت، غیر معیاری پانی اور دیگر وجوہات کی بناء پر گزشتہ چند سالوں میں کئی ہزار نوزائیدہ بچے جاں بحق ہو چکے ہیں۔ سندھ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کی جانب سے معاملے پر ازخود نوٹس لینے اور صوبائی حکومت کو سخت تنبیہ کے باوجود بھی علاقے میں صورتحال تسلی بخش نہیں بنائی جا سکی۔ ماہرین کے مطابق اس کی بڑی وجہ علاقے میں صحت کی بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔