پاکستان کی عدالت عظمیٰ آئندہ ہفتے توہین مذہب کے الزام قید ایک مسیحی خاتون آسیہ بی بی کی سزائے موت کے خلاف درخواست کی سماعت کرے گی۔
آسیہ بی بی پر الزام ہے کہ انھوں نے 2009ء میں شیخوپورہ کے ایک گاؤں میں مسلمان دیہاتی خواتین کے ساتھ بحث و تکرار کے دوران اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کیے۔
ملزمہ اس الزام کو مسترد کرتی آئی لیکن ایک ماتحت عدالت نے انھیں 2010ء میں سزائے موت سنائی تھی۔
ملزمہ کے وکیل نے فرانسیسی خبر رساں ایجنسی "اے ایف پی" کو بتایا کہ عدالت عظمیٰ کے جج ثاقب نثار ان کی موکلہ کی درخواست کی سماعت 13 اکتوبر کو کریں گے۔
پاکستان میں توہین مذہب ایک حساس معاملہ ہے اور اکثر ایسے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں جن میں خاص طور پر غیرمسلموں پر اس قانون کے تحت مقدمات درج کیے گئے جب کہ بعض واقعات میں مشتعل ہجوم نے قانون کی گرفت میں آنے سے پہلے ہی ملزمان کو تشدد کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا۔
بعض ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں کہ جن میں کچھ لوگوں نے ذاتی عناد کی وجہ سے اس قانون کا غلط استعمال بھی کیا۔
آسیہ بی بی کا مقدمہ اس لحاظ سے بین الاقوامی توجہ کا مرکز بنا کہ پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر نے ان سے جیل میں ملاقات کے بعد توہین مذہب کے قانون میں ترمیم کر کے اس کے غلط استعمال کو روکنے کی بات کی تھی جس پر جنوری 2011ء میں سلمان تاثیر کے محافظ ایک پولیس اہلکار ممتاز قادری نے انھیں فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا۔
ممتاز قادری کو عدالت نے سزائے موت سنائی تھی جس کے خلاف دائر سپریم کورٹ میں دائر کی گئی اپیل مسترد ہونے کے بعد انھیں رواں سال فروری میں تختہ دار پر لٹکا دیا گیا تھا۔
ممتاز قادری کے حامیوں اور سخت گیر موقف رکھنے والی مذہبی تنظیموں کا اصرار ہے کہ آسیہ بی بی کی سزائے موت پر بھی جلد عملدرآمد کیا جائے۔