سپریم کورٹ آف پاکستان نے ملک کی تمام عدالتوں میں جھوٹی گواہی دینے پر جھوٹےگواہان کےخلاف کارروائی کا حکم دیا ہے۔ چیف جسٹس، جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا ہے کہ ’’جو ایک جگہ جھوٹا ہوگا وہ ہر جگہ جھوٹا ہوگا‘‘۔
سپریم کورٹ نےجھوٹی گواہی کےحوالےسےتحریری فیصلہ جاری کر دیا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعیدکھوسہ نے31صفحات پر مشتمل یہ فیصلہ تحریر کیا ہے۔
عدالت عظمیٰ نے ماتحت عدلیہ کو جھوٹی گواہی پر کسی قسم کی لچک نہ دکھانے کا حکم دیتے ہوئے، جھوٹی گواہی پر جھوٹے گواہان کے خلاف کارروائی کا حکم دیا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے رجسٹرار آفس کو اس فیصلے کی نقل تمام ہائی کورٹوں اور ماتحت عدلیہ کے ججوں کو بھجوانے کی ہدایت کی ہے۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’’سچ انصاف کی بنیاد ہے۔ انصاف کسی مہذب، معاشرے کی بنیاد ہے۔ سچ پر سمجھوتہ دراصل معاشرے کے مستقبل پر سمجھوتہ ہے۔ ہمارے عدالتی نظام کو سچ سے انحراف کرنے کا بہت نقصان ہوا۔ اس سنگین غلطی کو درست کرنے کا وقت آگیا ہے‘‘۔
عدالت کا کہنا ہے کہ ’’جو شخص ایک جگہ جھوٹا ہوگا وہ ہرجگہ جھوٹا ہوگا۔ گواہی کے کسی حصےمیں بھی دروغ گوئی سے کام لیا گیا تو ساری گواہی جھوٹی تصور ہوگی۔ عدالتیں جھوٹے گواہ کے خلاف کسی قسم کی لچک نہ دکھائیں اور جھوٹی گواہی دینے پر کارروائی کی جائے‘‘۔
فیصلے میں قرآنی آیات کا حوالہ بھی دیا گیا ہے جن میں کہا گیا ہے کہ ’’ایمان کا تقاضا ہے کہ سچی گواہی دی جائے، چاہے سامنے کوئی عزیز یا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو۔ سچی گواہی کی عدم موجودگی میں انصاف ممکن نہیں ہے۔ اسلام بھی سچی گواہی کا حکم دیتا ہے۔ عدالت نے لکھا ہے کہ سچ کے خلاف جھوٹے کی حمایت سے ناانصافی کو فروغ ملتا ہے۔ جھوٹی گواہی انصاف اور مساوات کو نقصان پہنچاتی ہے۔ جھوٹی گواہی عوام کے تحفظ کے لیے بھی خطرہ ہے‘‘۔
چار مارچ کو چیف جسٹس آصف کھوسہ نے سیشن جج نارووال کو مبینہ ’’جھوٹےگواہ اے ایس آئی خضر حیات کے خلاف کارروائی کاحکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ آج سےسچ کا سفر شروع کر رہے ہیں۔ آج سے جھوٹی گواہی کا خاتمہ ہوتا ہے‘‘۔
اس کیس میں سپریم کورٹ نے قتل کے ملزم محمد الیاس کی سزا کے خلاف اپیل پر جھوٹی گواہی کا نوٹس لیتے ہوئے جھوٹے گواہ اے ایس آئی خضر حیات کو طلب کیا تھا، جبکہ ملزم محمد الیاس کو عدم شواہد کی بنا پر بری کر دیا گیا تھا۔ محمد الیاس پر سال 2007 میں ضلع نارووال کے علاقے میں آصف نامی شخص کو قتل کرنے کا الزام تھا اور ٹرائل کورٹ نے محمد الیاس کو سزائے موت سنائی تھی۔
چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ ’’حلف پر جھوٹا بیان دینا ہی غلط ہے۔ اگر انسانوں کا خوف نہیں تھا، تو اللہ کاخوف کرنا چاہیےتھا۔ آپ نے اللہ کا نام لے کر کہہ دیا جھوٹ بولوں تو اللہ کا قہر نازل ہو۔ شاید اللہ کا قہر نازل ہونے کا وقت آگیا ہے‘‘۔
پاکستان میں جھوٹی گواہی دینے سے متعلق اکثر شکایات سامنے آتی رہتی ہیں اور بعض اوقات، مبینہ طور پر پیسوں کے عوض، گواہی دیدی جاتی ہے، جس سے انصاف کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں آتی ہیں۔