صوبائی حکام کا کہنا ہے کہ جمعہ کو اغوا ہونے والے سوئٹزرلینڈ کے دو سیاحوں کی بازیابی کے لیے کوششیں جاری ہیں تاہم قانون نافذ کرنے والے اداروں کی معلومات کے مطابق اغوا کار وں نے اُنھیں وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے میں منتقل کر دیا ہے۔
بلوچستان کے سیکرٹری داخلہ ظفر الله بلوچ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ مسلح افراد نے مغوی جوڑے کو ژو ب کے راستے گومل اور وہاں سے افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان پہنچا دیا ہے۔”ہم نے فاٹا کے پولیٹکل ایجنٹ ہے اس کو مطلع کیا ہوا ہے کہ وہ اپنے علاقے میں الرٹ رہیں۔ یہاں سے ہم نے ٹیمیں بھجوا دیں ہیں ہمارے جو ڈپٹی کمشنر ہیں دونوں وہ علاقے کے عمائدین کو بھی اپنے ساتھ لے رہیں ہیں۔“
سوئزر لینڈ سے تعلق رکھنے والے دو نوں سیاح جمعہ کو صوبہ پنجاب کے شہر ڈیر ہ غازی خان سے بلوچستان میں داخل ہو ئے تھے اور لورالائی سے کو ئٹہ کی جانب اپنی گاڑی میں سفر کر رہے تھے۔ جب یہ جوڑا ایک ہو ٹل میں دوپہر کا کھانا کھانے کے لیے رُکا تو ایک گاڑی میں سوار پانچ مسلح افراد نے اُنھیں اسلحہ کے زور پر اغواکر لیا۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ اغوا کے وقت ان غیر ملکیوں کے ساتھ پو لیس یا لیویز کے مخافظ موجود نہیں تھے ۔ اطلاعات کے مطابق پاکستان میں سوئٹزرلینڈ کے کسی شہری کے اغوا کا یہ پہلا واقعہ ہے۔
دریں اثنا بلوچستان کی حکومت نے سترہ مئی کو کو ئٹہ کے نواحی علاقے خر و ٹ آباد میں ایف سی اور پولیس اہلکاروں کی فائرنگ سے پانچ غیر ملکی باشندوں کی ہلاکت کے بارے میں تحقیقات کے لئے قائم کئے گئے عدالتی کمیشن کی رپورٹ کی بعض تفصیلات ذرائع ابلاغ کو جاری کر دی ہیں۔
رپورٹ میں پولیس اور فرنٹیئرکور کے اہلکاروں کو ان ہلاکتوں کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا ہے کہ مارے جانے والے دو مردوں اور تین خواتین کے سامان سے ملنے والے شواہد کے مطابق ان کا تعلق کالعدم تنظیموں سے ظاہر ہوتا ہے ۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ افراد غیر قانونی طریقے سے پاکستان میں داخل ہوئے تھے ۔