اسلام آباد —
پاکستان میں طالبان کے مہلک حملوں میں رواں ماہ شدت آئی ہے اور پشاور میں فضائی تنصیبات پر دہشت گردوں کی مربوط کارروائی اور صوبہ خیبر پختونخواہ کے سینیئر وزیر بشیر احمد بلور کی خودکش حملے میں ہلاکت کے بعد مختلف حلقوں کی جانب سے ریاست مخالف جنگجوؤں کے خلاف کارروائی کے مطالبات میں بھی تیزی آئی۔
لیکن اس دوران طالبان شدت پسندوں نے حکومت کو مشروط مذاکرات کی پیشکش کی ہے۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود نے ذرائع ابلاغ کو بھیجے گئے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ وہ سنجیدہ مذاکرات چاہتے ہیں لیکن اس سے قبل اسلحہ پھینکنے کے مطالبات ایک مذاق ہیں۔
وفاقی حکومت کی طرف سے باضابطہ طور پر تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے مذاکرات کی مشروط پیش کش پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے تاہم صوبہ خیبر پختونخواہ کے وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین نے اسے ایک مثبت پیش رفت قرار دیا ہے۔
اُنھوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ان کی جماعت کے سربراہ اسفند یار ولی نے رواں ہفتے ہی ان تمام عناصر سے مذاکرات کی حمایت کی تھی جو پاکستانی ریاست اور آئین کو تسلیم کرتے ہیں۔
’’مذاکرات کے لیے ہم نے تشدد ترک کرنے کی بات کی ہے۔‘‘
میاں افتخار حسین نے کہا کہ طالبان سے مذاکرات تو وفاقی حکومت ہی کو کرنے ہیں لیکن اگر ان کی جماعت کو اس سلسلے میں کوئی ذمہ داری سونپی گئی تو وہ اسے ضرور نبھائیں گے۔
’’ہم یہ ہی سمجھتے ہیں کہ اب وقت آ ہی گیا ہے کہ مذاکرات کے ذریعے اس گتھی کو سلجھایا جائے۔‘‘
طالبان کمانڈر حکیم اللہ محسود نے اپنے پیغام میں جمہوری نظام حکومت اور پاک امریکہ تعلقات پر بھی تنقید کی۔ اس تناظر میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اتنی کڑی شرائط کے ہوتے ہوئے کامیاب مذاکرات کی توقع نہیں کی جا سکتی۔
پاکستان میں مختلف حلقوں کی جانب سے سیاسی جماعتوں سے یہ مطالبات کیے جا رہے ہیں کہ وہ دہشت گردی کے خلاف مشترکہ موقف اپنائیں تاکہ اس لعنت سے ملک کو نجات دلائی جا سکے۔
لیکن اس دوران طالبان شدت پسندوں نے حکومت کو مشروط مذاکرات کی پیشکش کی ہے۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود نے ذرائع ابلاغ کو بھیجے گئے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ وہ سنجیدہ مذاکرات چاہتے ہیں لیکن اس سے قبل اسلحہ پھینکنے کے مطالبات ایک مذاق ہیں۔
وفاقی حکومت کی طرف سے باضابطہ طور پر تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے مذاکرات کی مشروط پیش کش پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے تاہم صوبہ خیبر پختونخواہ کے وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین نے اسے ایک مثبت پیش رفت قرار دیا ہے۔
اُنھوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ان کی جماعت کے سربراہ اسفند یار ولی نے رواں ہفتے ہی ان تمام عناصر سے مذاکرات کی حمایت کی تھی جو پاکستانی ریاست اور آئین کو تسلیم کرتے ہیں۔
’’مذاکرات کے لیے ہم نے تشدد ترک کرنے کی بات کی ہے۔‘‘
میاں افتخار حسین نے کہا کہ طالبان سے مذاکرات تو وفاقی حکومت ہی کو کرنے ہیں لیکن اگر ان کی جماعت کو اس سلسلے میں کوئی ذمہ داری سونپی گئی تو وہ اسے ضرور نبھائیں گے۔
’’ہم یہ ہی سمجھتے ہیں کہ اب وقت آ ہی گیا ہے کہ مذاکرات کے ذریعے اس گتھی کو سلجھایا جائے۔‘‘
طالبان کمانڈر حکیم اللہ محسود نے اپنے پیغام میں جمہوری نظام حکومت اور پاک امریکہ تعلقات پر بھی تنقید کی۔ اس تناظر میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اتنی کڑی شرائط کے ہوتے ہوئے کامیاب مذاکرات کی توقع نہیں کی جا سکتی۔
پاکستان میں مختلف حلقوں کی جانب سے سیاسی جماعتوں سے یہ مطالبات کیے جا رہے ہیں کہ وہ دہشت گردی کے خلاف مشترکہ موقف اپنائیں تاکہ اس لعنت سے ملک کو نجات دلائی جا سکے۔