پاکستان میں سیاسی منظر نامے پر ایک بار پھر ہلچل شروع ہو گئی ہے اور اتوار کو حزب مخالف کی دوسری بڑی جماعت تحریک انصاف نے حکومت کی مبینہ بدعنوانیوں کے خلاف اپنی ملک گیر احتجاجی تحریک کا پشاور سے آغاز کر دیا ہے۔
ہزاروں کی تعداد میں اس جماعت کے کارکنان ریلی کی شکل میں پشاور سے اٹک تک گئے اور مختلف مقامات پر پارٹی کے سربراہ عمران خان اور دیگر رہنما اپنی تقاریر میں وزیراعظم نواز شریف اور مسلم لیگ ن کی حکومت پر تنقید کرتے رہے۔
رواں سال اپریل میں پاناما لیکس کے ذریعے اس انکشاف کے بعد کہ وزیراعظم نواز شریف کے تین بچوں نے بیرون ملک جائیدادیں بنانے کے لیے آف شور کمپنیاں قائم کیں۔
اس انکشاف کے بعد وزیراعظم نے خود پر بدعنوانی کے لگنے والے الزامات کی تحقیقات کے لیے حزب مخالف کے مطالبے پر عدالتی کمیشن بنانے کا اعلان تو کیا لیکن اس کمیشن کے ضابطہ کار وضع کرنے کے لیے بنائی گئی کمیٹی کے تمام اجلاس بے نتیجہ رہے اور تاحال یہ معاملہ جوں کا توں ہی ہے۔
عمران خان یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ اپنی اس احتجاجی تحریک کو مرحلہ وار پورے ملک میں جاری رکھیں گے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ حزب مخالف کی دونوں بڑی جماعتوں پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے وزیراعظم کے خلاف الیکشن کمیشن میں درخواستیں بھی جمع کروائی تھیں جن میں کہا گیا تھا کہ نواز شریف نے اپنے اثاثے ظاہر کرنے میں مبینہ طور پر غلط بیانی سے کام لیا اور اس بنا پر وہ رکن اسمبلی بننے کے اہل نہیں۔
وزیراعظم کی جماعت پاکستان مسلم لیگ ن نے عمران خان کو اسمبلی رکنیت سے نا اہل قرار دینے کے لیے قومی اسمبلی کے اسپیکر کو ریفرنس جمع کروایا جس میں ان پر بھی دروغ گوئی کا الزام عائد کیا گیا۔
سیاسی و مذہبی جماعت، جماعت اسلامی بھی ملک میں بدعنوانی کے خلاف صدا احتجاج بلند کر رہی ہے جبکہ اتوار کو پشاور میں ہی مسلم لیگ ن نے بھی ایک جلسے کا اہتمام کیا جس میں وزیراعظم کے خلاف شروع احتجاجی تحریک کو بلاجواز قرار دیتے ہوئے عمران خان پر تنقید کی گئی۔
مبصرین یہ کہتے ہیں کہ سیاسی معاملات کو سیاسی طریقے سے حل کرنے کی بجائے سڑکوں پر احتجاج مناسب نہیں ہے لیکن تحریک انصاف کا استدلال ہے کہ ان کی طرف سے اسمبلی اور دیگر متعلقہ فورمز پر اٹھائی جانے والے سوالوں کے اس کے بقول جواب نہ ملنے پر وہ اپنا احتجاج سڑکوں پر لے کر آئی ہے۔
سیاسی امور کے تجزیہ کار سردار امان اللہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ملک کی سیاسی جماعتیں عام آدمی کو درپیش مسائل حل کرنے کی بجائے آئندہ انتخابات کے لیے تیاری کرتی دکھائی دیتی ہیں۔
ادھر وفاقی وزیراطلاعات پرویز رشید نے عمران خان کی احتجاجی تحریک کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ بدعنوانی کے لیے کی جانے والی قانونی سازی میں ایوان میں آکر اپنا کردار ادا کریں۔