عالمی خطرات کا تجزیہ کرنے والی فرم ویرسک میپل کروفٹ کی ایک رپورٹ نے دنیا بھر کے ایسے شہروں کی ایک فہرست مرتب کی ہے جنہیں دہشت گرد حملوں کا خطرہ لاحق ہے۔
اس فہرست میں شامل دہشت گردی کے ’’شدید خطرے‘‘ سے دوچار 64 شہروں میں پاکستان کا دارالحکومت اسلام آباد بھی شامل ہے اور فہرست میں اس کا 44 واں نمبر ہے۔
رپورٹ مرتب کرنے کے لیے گزشتہ چھ برس کے دوران ہونے والے حملوں کی شدت اور تعداد کی روشنی میں دنیا کے 1,300 شہروں کا جائزہ لیا گیا۔
تجزیے میں عراق کا شہر بغداد سر فہرست ہے۔ فہرست میں شامل بارہ دارالحکومتوں میں افغانستان کا دارالحکومت کابل، مصر کا قاہرہ، نائجیریا کا ابوجا اور کینیا کا دارالحکومت نیروبی بھی شامل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اسلام آباد کے علاوہ پاکستان کے چھ شہروں پشاور، کوئٹہ، کراچی، راولپنڈی، لاہور اور سکھر کو بھی دہشت گردی سے شدید خطرہ لاحق ہے۔
ویرسک میپل کروفٹ کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ مصر، اسرائیل، کینیا، نائجیریا اور پاکستان جیسی کلیدی اہمیت کی حامل معیشتوں میں دہشت گرد حملے کاروبار اور سپلائی چین کے تسلسل کے لیے خطرے کا باعث ہیں۔
پاکستان میں گزشتہ ایک برس سے دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں میں تیزی آئی ہے جس کے بعد شدت پسندوں کے حملوں میں اگرچہ کچھ کمی آئی ہے لیکن اس دوران ملک کے مختلف شہروں میں کئی مہلک حملے ہو چکے ہیں۔
یہ رپورٹ ایسے وقت سامنے آئی ہے جب پاکستان کے وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اعلان کیا ہے کہ اسلام آباد کا ’سیف سٹی‘ یعنی محفوظ شہر پراجیکٹ اس سال ستمبر تک مکمل کر لیا جائے گا۔
ملک میں اپنی نوعیت کے پہلے محفوظ شہر پراجیکٹ کے تحت شہر میں مختلف مقامات پر 2000 کے قریب نگرانی کے کیمرے نصب کیے جائیں گے جنہیں تیز رفتار انٹرنیٹ نظام کے ذریعے ایک دوسرے سے مربوط کیا جائے گا۔
اربوں روپے کی لاگت سے مکمل ہونے والے اس پراجیکٹ میں مشتبہ افراد کو پکڑنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے گا جس میں گاڑیوں کی ترسیل کا کمپیوٹر نظام اور چہرے کی شناخت کرنے والا سوفٹ وئیر شامل ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ اس پراجیکٹ کے فعال ہونے کے بعد شہر سے چیک پوسٹیں ہٹا دی جائیں گی۔ کراچی اور پنجاب کے شہروں کو محفوظ بنانے کے لیے بھی اسی قسم کے منصوبے زیرِ غور ہیں۔
سابق سیکرٹری داخلہ تسنیم نورانی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سیف سٹی پراجیکٹ بنیادی طور پر نگرانی کا نظام ہے جس میں کیمروں کے ذریعے مشتبہ افراد کی شناخت، یا واردات کے بعد شواہد اکھٹے کرنے میں مدد ملے گی، مگر اس سے ایسے واقعات کی روک تھام کا پہلو موجود نہیں۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف 20 نکاتی قومی لائحہ عمل ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے ایک نہایت جامع مسودہ ہے، مگر اُن کے بقول اس پر موثر طریقے سے کام نہیں ہو رہا۔