پاکستان کے صوبہ سندھ کے صحرائی علاقے تھر پارکر کے بیشتر حصوں میں زندگی سینکڑوں سال پہلے جیسی ہی ہے۔ یہاں کے لوگوں کی بودوباش، ان کے شب و روز اس جدید دور کی سہولتوں سے عاری ہیں۔
تھر پارکر سے خشک سالی اور قحط سے جانی نقصانات کی خبریں تو آتی ہی رہتی ہیں لیکن حال ہی میں وہاں ایک غیر سرکاری تنظییم کی طرف سے زندگی کی بنیادی ضرورت یعنی پانی کی فراہمی کے لیے شمسی توانائی کے استعمال کی کوشش نسبتاً ایک خوش کن خبر ہے۔
صحرائی علاقے میں زیر زمین پانی کی سطح عام علاقوں کی نسبت خاصی نیچے ہوتی ہے اور گھروں سے دور واقع کنوؤں سے روایتی طریقے سے پانی نکالنا اور انھیں گھروں تک لانا اپنی جگہ تکلیف دہ حد تک مشکل کام ہے۔
ایسے میں اویئر (AWARE) نامی غیر سرکاری تنظیم نے کنوؤں سے پانی نکال کر گھروں تک فراہمی کے لیے شمسی توانائی کا استعمال شروع کیا۔
تنظیم کے ایک عہدیدار جان محمد سمو نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ انھوں نے تھرپارکر کے مختلف علاقوں میں چار پلانٹ لگائے ہیں جن میں سے ہر ایک پلانٹ سے روزانہ تقریباً چالیس سے پچاس گھروں کو پانی فراہم کیا جاتا ہے۔
" پہلے نیچے (کنویں) سے تین سو فٹ سے پانی نکالنا پڑتا تھا اور اس کے لیے دو تین مویشی استعمال کرتے تھے اور اس کا رسہ واپس جاتا تھا تو اس سے جانور کے گوبر وغیرہ بھی نیچے جاتا تھا تو اس سے پانی خراب رہتا تھا اب کنواں مکمل طور پر اوپر سے بند ہوتا ہے اور محفوظ پانی باہر آتا ہے کیونکہ اس سولر پلانٹ کا جو کام ہے کہ کنویں میں موٹر لگتی ہے اس سے پانی باہر نکالتا ہے۔"
ان کا کہنا تھا کہ شمسی توانائی کے استعمال سے پانی کی فراہمی کے منصوبوں سے یہاں کے لوگوں کے کئی دیگر مسائل میں بھی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
" اگر کنویں سے ایک کنبہ پانی نکالتا ہے تو ایک گھر کے تین سے پانچ گھنٹے صرف ہوتے ہیں۔ کنویں سے پانی لے کرجانا خواتین کی ذمہ داری ہوتی ہے اور یہ کنویں نچلی سطح پر بنائے جاتے ہیں اور گھر اونچائی پر بنائے جاتے ہیں تو جب ایک خاتون اونچائی تک پانی لے کر جاتی ہے تو اس سے اس کی صحت پر بھی فرق پڑتا ہے۔"
جان محمد نے بتایا کہ یہاں لوگوں کو ان کے گھروں تک پانی نہایت کم قیمت پر فراہم کیا جاتا ہے جس کے لیے ان کے گھروں پر واٹر میٹر بھی لگائے گئے ہیں۔
" ہمارے ہا ں جو میٹر لگے ہوئے ہیں تو 10 پیسے یا 20 پیسے فی لٹر پانی کے لیتے ہیں۔ تھر پارکر میں مال مویشی زیادہ ہیں اور اگر مال و مویشی کو اسی سے پانی پلاتے ہیں تو دو ہزار سے پچیس سو کا ماہوار بل آتا ہے اور اگر مویشیوں کو نہیں پلاتے صرف اپنی فیملی کو تو ایک گھر کا پانچ سو سے آٹھ سو کا بل آتا ہے۔"
اس تنظیم کا کہنا ہے کہ تاحال انھیں حکومت کی طرف سے کسی طرح کی معاونت حاصل نہیں ہے لیکن سرکاری طور پر بنائے گئے کنوؤں کے ساتھ شمسی توانائی کے پلانٹ نصب کرنے کے لیے ان کی مقامی انتظامیہ کے ساتھ مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط ہو چکے ہیں۔
گو کہ یہ منصوبہ ابھی نسبتاً چھوٹے پیمانے پر ہے لیکن اس سے مستفید ہونے والے لوگوں کے لیے یہ کسی طرح بھی کسی نعمت سے کم نہیں اور یہ اس امر کی بھی نشاندہی ہے کہ تھوڑی سی توجہ اور بہتر منصوبہ بندی کے ساتھ تھر کے ان لوگوں کے طرز زندگی میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔