کراچی —
پاکستان کے صحرائی علاقوں کے باسیوں کے لئے زندگی ہر حوالے سے کٹھن ہے۔ پنجاب کے چولستان میں بسنے والے ہوں یا سندھ کے صحرا ’تھرپارکر‘ کے باشندے۔ دونوں کو ایک جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ اُن کے مویشی مر رہے ہیں جبکہ بچے غذائی قلت اور ناقص غذا کی وجہ سے دنیا سے رخصت ہو رہے ہیں۔ایسے میں اگر وہ ان علاقوں کی طرف ہجرت کرتے ہیں جہاں قحط نہیں تو انہیں مقامی لوگوں کی جانب سے خوش آمدید نہیں کہا جاتا۔
قحط کا شکار ہونے والے علاقوں میں کام کرنے والے امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ قحط نے بہت ہولناک صورتحال پیدا کی ہے جس سے نمٹنے کے لئے بڑے پیمانے پر امداد کی ضرورت ہے۔
سندھ حکومت کے ریلیف آپریشن کے کوآرڈینیٹر تاج حیدر کا کہنا ہے کہ یکم دسمبر سے 28 مارچ 2014ء تک تھرپارکر میں 201 اموات ہوئیں جن میں 51 مرد، 34 خواتین اور 16 بچے شامل ہیں۔ تاج حیدر کے مطابق ان اموات کی وجہ قحط نہیں بلکہ بیماریاں تھیں۔
اقوام ِمتحدہ کی زیر ِنگرانی چلنے والے ادارے انٹی گریٹیڈ ریجنل انفارمیشن نیٹ ورکس کی ایک رپورٹ کے مطابق قحط براہ ِراست موت کا ذمہ دار نہیں ہوتا ۔ زیادہ تر بچے ناقص اور ناکافی غذا کی وجہ سے بیمار ہو کر اسپتال پہنچتے ہیں، تھرپارکر میں بھی یہی صورتحال ہے۔ بچے کمزور مدافعت کی وجہ سے صحت مند نہیں ہوپاتے۔
رپورٹ کے مطابق آلودہ پانی بیماریوں کے پھوٹنے کی بہت بڑی وجہ ہے ۔انسان اور جانور دونوں ہی اس پانی کی سبب متاثر ہو رہے ہیں۔ورلڈ فوڈ پروگرام کا بھی کہنا یہی ہے کہ ناقص غذا نے بحران کو سنگین بنا دیا ہے۔
ورلڈ فوڈ پروگرام کی کنٹری ڈائریکٹر لولا کاترو کاکہنا ہے، ’بحران سے نمٹنے کے لئے ورلڈ فوڈ پروگرام پورے ڈسٹرکٹ میں نیوٹریشن سپورٹ فراہم کر رہا ہے۔ اس سپورٹ کا مقصد حاملہ وکمزور خواتین اور بچوں کی فوری ضروریات کو پورا کرنا ہے‘۔
کاترو نے مزید بتایا، ’مدد فراہم کرنے کی درخواست سندھ حکومت کے ہیلتھ اور نیوٹریشن ڈپارٹمنٹ نے کی تھی۔ نیوٹریشن پروگرام سے تھرپارکر کی تمام یونین کاؤنسلز میں ناقص غذا کا شکار 18,000 سے زیادہ بچوں ،ناقص غذا کا سامنا کرتی 16,000 حاملہ اورکمزور خواتین کو فائدہ پہنچے گا‘۔
سندھ حکومت کے وزیراطلاعات شرجیل میمن کا کہنا ہے کہ 2002 کے بعد پڑنے والا یہ بدترین قحط ہے۔ انہوں نے مقامی میڈیا کو حقائق بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کا الزام دیتے ہوئے کہا کہ متعلقہ ادارے بہت بہتر طریقے سے صورتحال کو کنٹرول کرسکتے تھے۔
واٹر اپلائیڈ ایجوکیشن اینڈ رینیو ایبل انرجی چھاچھروکے ایگزیکٹو ڈائریکٹر علی اکبر کا کہنا ہے کہ، ’تھرپارکر میں تمام تر امدادی کارروائیوں کے باوجود صورتحال میں اتنی تبدیلی نہیں آئی ہے جتنی آنی چاہئے تھی اور اب بھی وقفے وقفے سے ہی سہی بچوں کی اموات کی اطلاعات مل رہی ہیں کیونکہ حکومت صرف گندم فراہم کر رہی ہے۔ شیرخوار بچوں، حاملہ خواتین اور دودھ پلانے والی ماؤں کو غذائیت سے بھرپور غذا مثلاً دودھ دستیاب نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ناقص غذا کا بحران اب بھی جاری ہے‘۔
قحط کا شکار ہونے والے علاقوں میں کام کرنے والے امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ قحط نے بہت ہولناک صورتحال پیدا کی ہے جس سے نمٹنے کے لئے بڑے پیمانے پر امداد کی ضرورت ہے۔
سندھ حکومت کے ریلیف آپریشن کے کوآرڈینیٹر تاج حیدر کا کہنا ہے کہ یکم دسمبر سے 28 مارچ 2014ء تک تھرپارکر میں 201 اموات ہوئیں جن میں 51 مرد، 34 خواتین اور 16 بچے شامل ہیں۔ تاج حیدر کے مطابق ان اموات کی وجہ قحط نہیں بلکہ بیماریاں تھیں۔
اقوام ِمتحدہ کی زیر ِنگرانی چلنے والے ادارے انٹی گریٹیڈ ریجنل انفارمیشن نیٹ ورکس کی ایک رپورٹ کے مطابق قحط براہ ِراست موت کا ذمہ دار نہیں ہوتا ۔ زیادہ تر بچے ناقص اور ناکافی غذا کی وجہ سے بیمار ہو کر اسپتال پہنچتے ہیں، تھرپارکر میں بھی یہی صورتحال ہے۔ بچے کمزور مدافعت کی وجہ سے صحت مند نہیں ہوپاتے۔
رپورٹ کے مطابق آلودہ پانی بیماریوں کے پھوٹنے کی بہت بڑی وجہ ہے ۔انسان اور جانور دونوں ہی اس پانی کی سبب متاثر ہو رہے ہیں۔ورلڈ فوڈ پروگرام کا بھی کہنا یہی ہے کہ ناقص غذا نے بحران کو سنگین بنا دیا ہے۔
ورلڈ فوڈ پروگرام کی کنٹری ڈائریکٹر لولا کاترو کاکہنا ہے، ’بحران سے نمٹنے کے لئے ورلڈ فوڈ پروگرام پورے ڈسٹرکٹ میں نیوٹریشن سپورٹ فراہم کر رہا ہے۔ اس سپورٹ کا مقصد حاملہ وکمزور خواتین اور بچوں کی فوری ضروریات کو پورا کرنا ہے‘۔
کاترو نے مزید بتایا، ’مدد فراہم کرنے کی درخواست سندھ حکومت کے ہیلتھ اور نیوٹریشن ڈپارٹمنٹ نے کی تھی۔ نیوٹریشن پروگرام سے تھرپارکر کی تمام یونین کاؤنسلز میں ناقص غذا کا شکار 18,000 سے زیادہ بچوں ،ناقص غذا کا سامنا کرتی 16,000 حاملہ اورکمزور خواتین کو فائدہ پہنچے گا‘۔
سندھ حکومت کے وزیراطلاعات شرجیل میمن کا کہنا ہے کہ 2002 کے بعد پڑنے والا یہ بدترین قحط ہے۔ انہوں نے مقامی میڈیا کو حقائق بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کا الزام دیتے ہوئے کہا کہ متعلقہ ادارے بہت بہتر طریقے سے صورتحال کو کنٹرول کرسکتے تھے۔
واٹر اپلائیڈ ایجوکیشن اینڈ رینیو ایبل انرجی چھاچھروکے ایگزیکٹو ڈائریکٹر علی اکبر کا کہنا ہے کہ، ’تھرپارکر میں تمام تر امدادی کارروائیوں کے باوجود صورتحال میں اتنی تبدیلی نہیں آئی ہے جتنی آنی چاہئے تھی اور اب بھی وقفے وقفے سے ہی سہی بچوں کی اموات کی اطلاعات مل رہی ہیں کیونکہ حکومت صرف گندم فراہم کر رہی ہے۔ شیرخوار بچوں، حاملہ خواتین اور دودھ پلانے والی ماؤں کو غذائیت سے بھرپور غذا مثلاً دودھ دستیاب نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ناقص غذا کا بحران اب بھی جاری ہے‘۔