رسائی کے لنکس

راحیل شریف کے فوجی اتحاد کی 'کمان سنبھالنے' کے پاکستان پر ممکنہ اثرات


جنرل راحیل سعودی وزیر دفاع کے ہمراہ (فائل فوٹو)
جنرل راحیل سعودی وزیر دفاع کے ہمراہ (فائل فوٹو)

بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار ظفر جسپال کے نزدیک اس منصب پر راحیل شریف کے فائز ہونے سے پاکستان کے لیے ملے جلے اثرات ہوں گے۔

پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے بتایا ہے کہ سعودی عرب کی طرف سے تشکیل دیے گئے مسلم ملکوں کے فوجی اتحاد کی قیادت کے لیے پاکستانی فوج کے سابق سربراہ راحیل شریف کی خدمات حاصل کرنے کی باضابطہ درخواست کی گئی تھی جسے پاکستان نے منظور کر لیا ہے۔

سعودی عرب نے گزشتہ سال 30 سے زائد مسلم ملکوں کی شمولیت سے یہ اتحاد قائم کرنے کا اعلان کیا تھا جس کا مقصد دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنا ہے۔

نجی ٹی وی چینل "جیو نیوز" کے ایک پروگرام میں وزیردفاع کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان رضامندی کے بعد سابق آرمی چیف کے لیے اس منصب کو سنبھالنے میں بظاہر ضابطے کی کوئی اور کارروائی باقی نہیں رہ جاتی۔

رواں سال کے اوائل میں بھی خواجہ آصف نے اعلان کیا تھا کہ راحیل شریف اس تحاد کی قیادت سنبھال رہے ہیں جس پر حزب مخالف کی طرف سے یہ کہہ کر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ چونکہ اس اتحاد میں پڑوسی ملک ایران شامل نہیں ہے اور ایک سابق اعلیٰ ترین پاکستانی فوجی عہدیدار کی طرف سے اس اتحاد کی کمان سے پاکستان کے لیے سفارتی مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔

بعد ازاں وزیردفاع نے ایوان بالا کو بتایا تھا کہ اس ضمن میں تاحال کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا۔

مبصرین سابق پاکستانی جنرل کے مسلم ملکوں کے فوجی اتحاد کی قیادت سنبھالنے کی اطلاعات پر ملے جلے ردعمل کا اظہار کرتے آئے ہیں۔

فوج کے ایک سابق لیفٹیننٹ جنرل اور سلامتی کے امور کے تجزیہ کار امجد شعیب کے خیال میں راحیل شریف اگر اس اتحاد کی کمان سنبھالتے ہیں تو یہ پاکستان کے لیے مثبت ہوگا۔

اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ چونکہ اس اتحاد کا مرکزی مقصد شدت پسند تنظیم داعش کے پھیلاؤ کو روکنا ہے جسے ایران بھی دشمن تصور کرتا ہے لہذا تہران کے اس اتحاد میں شامل ہونے میں کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے اور اس کے لیے کوشش بھی کی جا سکتی ہے۔

"راحیل شریف کو جتنا میں جانتا ہوں ان کے خاندان کو بھی وہ ایک سچے محب وطن پاکستانی ہیں تو اس لحاظ سے میں سمجھتا ہوں کہ وہ جہاں بھی جائیں گے پاکستان کے لیے جذبہ خیر سگالی پیدا کریں گے۔"

لیکن بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار ظفر جسپال کے نزدیک اس منصب پر راحیل شریف کے فائز ہونے سے پاکستان کے لیے ملے جلے اثرات ہوں گے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی دنیا میں ایک بحث ہے کہ دہشت گردی خاص طور پر " جنداللہ وغیرہ تو انھیں بیرونی معاونت حاصل ہوتی ہے۔ تو جب راحیل شریف اس اتحاد میں جائیں گے تو وہ اس بارے میں زیادہ بہتر طور پر دیکھ سکیں گے کہ اصل حقائق کیا ہیں اور کس طرح سے اس چیلنج سے نمٹنا ہے۔"

لیکن ساتھ ہی ظفر جسپال کا کہنا تھا کہ اس کے ساتھ ایک چیلنج بھی درپیش ہو گا۔

"دیکھنا یہ ہوگا کہ پاکستان سفارتی طور پر ایران کو یا خطے کے دیگر ممالک کو کس طرح قائل کرتا ہے کہ اس (اتحاد) میں ہم آپ کے خلاف نہیں ہیں بلکہ اس فساد کے خلاف ہیں جو آپ کے لیے بھی اور ہمارے لیے بھی چیلنج ہے اور فتنہ پھیلا رہا ہے۔"

شائع شدہ اطلاعات کے مطابق ابتدائی طور پر راحیل شریف تین سال کے لیے اس اتحاد کے سربراہ ہوں گے۔

XS
SM
MD
LG