|
کراچی -- پاکستان نے بنگلہ دیش کے ساتھ تجارتی تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے بنگلہ دیشی تاجروں کو ویزے میں سہولت دینے کا اعلان کیا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ شیخ حسینہ حکومت کے خاتمے کے بعد دونوں ملک اب قریب آ رہے ہیں۔
اسلام آباد نے رواں ہفتے سے بنگلہ دیشی تاجروں کو دو روز کے اندر مفت کاروباری اور وزٹ ویزوں کے اجرا اور آن ارائیول ویزا دینے کا اعلان کیا ہے۔
بنگلہ دیش میں پاکستان کے ہائی کمشنر سید معروف نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ بنگلہ دیشی شہریوں کے لیے پاکستانی ویزا کا نظام بہت سیدھا اور آسان بنا دیا گیا ہے اور اس سے پاکستان آنے والے مسافروں کو بہت آسانی ہو گی۔
اگرچہ اس وقت پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان کوئی بہت زیادہ مسافروں یا تاجروں کا آنا جانا نہیں ہے۔ لیکن ماہرین کی جانب سے دونوں ممالک کے تاریخی تعلقات کو دیکھتے ہوئے اس فیصلے کے دوررس نتائج کی امید کی جا رہی ہے۔
پاکستانی تاجر بھی بنگلہ دیشی تاجروں کو سفری سہولیات فراہم کرنے کے حکومتی فیصلے کا خیر مقدم کر رہے ہیں۔ لیکن ماہرین کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان معاشی اور تجارتی تعلقات استوار کرنے میں اب بھی بہت سی رکاوٹیں ہیں۔
سب سے اہم سوال یہ کیا جا رہا ہے کہ پاکستان بنگلہ دیشی تاجروں کو یہاں کیا ایسی پیش کش کر سکتا ہے جس سے انہیں یہاں سرمایہ کاری کی ترغیب مل سکے؟
ویزا نرمیوں سے بنگلہ دیش کو کیا فائدہ مل سکتا ہے؟
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی چیمبر آف کامرس کے سابق نائب صدر شمس الاسلام کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بنگلہ دیشی تاجروں کو مواقع تبھی مل سکتے ہیں جب یہاں سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول فراہم کیا جائے۔
اُن کے بقول اسلام آباد نے ویسے تو دنیا کے 100 سے زائد ممالک کو فری ویزا کی پیش کش کی ہے۔ لیکن کوئی بھی سرمایہ کار یہاں آ کر سرمایہ کیوں لگائے گا جب یہاں پرانے طریقے ہی سے معیشت چلانے کی کوشش کی جارہی ہو۔
تاہم ان کا کہنا ہے کہ 'پیپل ٹو پیپل کانٹیکٹ' نقل و حرکت میں آسانی اور تجارتی تعلقات قوموں کے درمیان تاریخی تعلقات کو بہتر بنانے میں ہمیشہ مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ ماضی میں پاکستان سے درآمدات پر بنگلہ دیش کی جانب سے پابندیاں عائد کی گئیں اور یوں پاکستانی تاجروں کے لیے بنگلہ دیشی منڈی بند کر کے بھارت کو زیادہ مواقع فراہم کیے گئے۔
بنگلہ دیش کے تجربات سے پاکستان کو کیا فوائد مل سکتے ہیں؟
شمس الاسلام کہتے ہیں کہ بنگلہ دیش اور پاکستان ٹیکسٹائل میں ایک دوسرے کے تجربے سے سیکھ سکتے ہیں کیوں کہ دونوں ہی کا غیر ملکی زرِمبادلہ کے حصول میں اس پر کافی انحصار ہے۔
بنگلہ دیش کی ریڈی میڈ گارمنٹس کی برآمدات اربوں ڈالرز میں ہے اور وہ اس شعبے میں پاکستان سے یہ کہیں آگے ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی ٹیکسٹائل ملز کو یہاں کاٹن اور دھاگہ میسر ہے جب کہ وہاں کاٹن اور اس سے تیار کردہ یارن یعنی دھاگہ امپورٹ کرنے کے بعد کپڑا تیار کیا جاتا ہے۔
اُن کے بقول بنگلہ دیش کی افرادی قوت کی تربیت کے لیے وہاں کئی اچھے انسٹی ٹیوٹ کام کر رہے ہیں اور کئی لحاظ سے ان کی افرادی قوت پاکستان ہی نہیں بلکہ بھارت سے بھی زیادہ ہنر مند ہے۔ اس طرح پاکستان کو بنگلہ دیش کے ان تجربات سے فائدہ ہو سکتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ایک تحقیق کے مطابق اگر پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان فری ٹریڈ ایگریمنٹ کر لیا جائے جس کے تحت دونوں ممالک ایک دوسرے کی مصنوعات کی باآسانی رسائی ممکن بنائیں تو باہمی تجارت کا حجم چار ارب ڈالر تک پہنچ سکتا ہے۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تجارت بڑھانے کی غرض سے براہ راست شپنگ سروس قائم کرنے اور فضائی سروس بحال کرنا ضروری ہے۔ ویزا نرمیوں کا اصل فائدہ تبھی ہی ملے گا جب دونوں ممالک کے درمیان سفر کرنا آسان ہو گا۔ ماضی میں پی آئی اے کی ڈھاکہ اور چٹاگانگ کے لیے پروازیں تھیں، لیکن اب ایسا نہیں ہے۔
شمس الاسلام کے مطابق پاکستان بنگلہ دیش کی کئی غذائی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد دے سکتا ہے کیوں کہ اس وقت نہ صرف پاکستان کے بنگلہ دیش سے تعلقات بہتر ہو رہے ہیں بلکہ دوسری جانب بھارت نے کئی غذائی اشیا کی درآمدات پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ ایسے میں وہاں پاکستانی تاجروں کے لیے مواقع زیادہ ہیں۔
دیکھنا یہ ہے کہ ڈھاکہ کا ردِعمل کیا ہو گا؟
پاکستان کے سابق سفارت کار اور ڈھاکہ میں ہائی کمشنر تعینات رہنے ولے افراسیاب مہدی ہاشمی کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان نہ صرف تجارت اور صنعت و حرفت بلکہ اقتصادی، ثقافتی اور سیاسی میدانوں میں بھی تعلقات کو فروغ دینے کے بہت سے مواقع موجود ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ کافی عرصے اب تعلقات میں بہتری پر سرمایہ کاروں اور عام شہریوں کو ویزا کی سہولیات فراہم کرنے کے اعلان کو شک کی نگا سے نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ پاکستان اور بنگلہ دیش میں باہمی تعاون کے بہت سے مواقع موجود ہونے کے ساتھ یہ تعلقات جنوبی ایشیائی ممالک کی تنظیم سارک کے پلیٹ فارم کو دوبارہ سے فعال بنانے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔
اُن کے بقول پاکستان اور بنگلہ دیش ایک دوسرے کے تجربات سے فائدے اٹھا سکتے ہیں اور اس کے لیے دونوں اقوام کو قریب لانے میں ثقافتی سفارت کاری اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ پاکستان کے صوفی گائیک ہوں یا پاپ سنگرز یا کھلاڑی ان کی بنگلہ دیش میں بہت زیادہ مقبولیت ہے۔
افرسیاب مہدی ہاشمی کے مطابق بنگلہ دیش میں آزادی کے بعد سے سیاسی تبدیلیاں آتی چلی گئیں اور یہ بات واضح ہے کہ ماضی قریب میں شیخ حسینہ کی پالیسیوں کی بدولت ڈھاکہ کا جھکاؤ نئی دلی کی جانب زیادہ رہا۔
ان کا کہنا تھا کہ ابھی وہاں عبوری حکومت ہے اور اس کی پالیسیاں بھی ایک خاص عرصے تک ہی ہوتی ہیں۔ دیکھنا ہے کہ بنگلہ دیش پاکستان کی اس پیش کش پر کیا پالیسی اختیار کرتا ہے۔
ان کے بقول دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے لیے باہمی دورے، ملاقاتیں اور مختلف شعبوں کے ماہرین کو ایک دوسرے سے تجربے سے ہم آہنگ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
پاکستان اور بنگلہ دیش کی تلخ تاریخ اور تعلقات میں بہتری کے امکانات
شیخ حسینہ کے پندرہ سالہ دور حکومت میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات خراب ہو گئے تھے۔ اس کی اہم وجہ مبصرین شیخ حسینہ کا بھارت کی جانب جھکاؤ قرار دیتے ہیں۔
شیخ حسینہ کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد ڈھاکہ میں عبوری انتظامیہ کی جانب سے حکومت کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد ایک بار تعلقات میں برف پگھلتی دکھائی دے رہی ہے۔ رواں سال ستمبر میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر دونوں ممالک کے رہنماؤں کی ملاقات بھی ہوئی تھی جس سے دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تعلقات میں بہتری کا رجحان بڑھتا دکھائی دیا۔
ملاقات کے بعد جاری اعلامیے کے مطابق وزیرِ اعظم شہباز شریف نے چیف ایگزیکٹو پروفیسر محمد یونس کو پاکستان کا سرکاری دورہ کرنے کی بھی دعوت دی جس سے علاقائی تعاون اور بات چیت کی اہمیت کو تقویت ملے گی۔
اعلامیے میں اتفاق کیا گیا کہ دونوں ممالک کے عوام کی ترقی اور ترقی کے لیے دو طرفہ، علاقائی اور کثیر جہتی سطحوں پر مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
فورم