پاکستان کی وزارتِ داخلہ کے حکام نے کہا ہے کہ افغانستان میں غیر ملکی اداروں کے لئے کام کرنے والےصحافیوں کے لئے ویزہ کی شرائط میں نرمی کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ اعلان ایسے وقت پر کیا گیا ہے، جب افغانستان سے امریکہ اور نیٹو فوجیوں کا انخلاء مکمل ہونے میں چند ہفتے باقی ہیں اور طالبان کی ہفتے بھر کی کارروائیوں میں ملک کا بڑا علاقہ طالبان کے کنٹرول میں چلا گیا ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق پاکستان کے وزیرِ داخلہ شیخ رشید نے جمعے کے روز ٹویٹر پر یہ اعلان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ تمام صحافی جو افغانستان میں بین الاقوامی اداروں یا دیگر غیر ملکی میڈیا کے لئے کام کر رہے ہیں اور پاکستان کے ذریعے وہاں سے نکلنا چاہتے ہیں وہ پاکستانی ویزہ کی درخواست دے سکتے ہیں۔
شیخ رشید نے کہا کہ ان کی وزارت یہ ویزے ترجیحی بنیادوں پر جاری کرے گی۔ تاہم، انہوں نے اس بارے میں مزید تفصیل نہیں بتائی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی حکومت نے یہ فیصلہ صحافیوں کے تحفظ کے پیشِ نظر کیا ہے۔
اگرچہ پاکستانی وزیرِ داخلہ نے اس بارے میں تفصیل نہیں بتائی، تاہم معمول کے حالات میں صحافیوں کو پاکستانی ویزہ جاری کرنے سے پہلے ان کے کوائف کی طویل انٹیلی جنس چھان بین کی جاتی ہے۔
اسی دوران پاکستان میں قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے افغان لیڈروں پر زور دیا ہے کہ وہ افغانستان میں مزید تشدد سے بچنے کے لئے طالبان کے ساتھ جلد کسی سیاسی سمجھوتے پر پہنچیں۔
معید یوسف نے جمعے کو پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے شہروں کے یکے بعد دیگرے طالبان کے کنٹرول میں جانے سے امن عمل کو تیز کرنے کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔
معید یوسف کا کہنا تھا کہ "یقین کیجئے اگر یہ مل بیٹھیں تو وہ اس قابل ہوں گے کہ کوئی نہ کوئی سمجھوتہ کر لیں اور افغان لیڈر جو فیصلہ کریں گے ہم اس کا احترام کریں گے۔ "
انھوں نے مزید کہا کہ اگر افغان بحران کے کسی سیاسی حل کے لئے ہم تمام کوششیں بروئے کار نہیں لاتے تو تاریخ ہمیں بہت بری طرح ذمے دار ٹھہرائے گی۔
پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر نے پاکستان کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے ماضی میں افغان امن عمل میں سہولت کے لئے اپنی بہترین کوشش کی ہے۔
معید یوسف نے کہا کہ "ہم صرف پیغام دے سکتے ہیں، پاکستان امن کا ضامن نہیں ہو سکتا۔ ہم جو ممکن ہو سکا، وہ سہولت فراہم کریں گے۔"
انہوں نے کہا کہ افغان عوام جو سیاسی فیصلہ کریں، سب کو اس کا احترام کرنا چاہیئے۔
اس سے پہلے پاکستان طالبان پر اپنا بھرپور اثر و رسوخ استعمال کر چکا ہے اور ماضی میں بھی انہیں مذاکرات کی میز پر لانے کے لئے دباؤ ڈال چکا ہے۔
واضح رہے کہ افغانستان کی جانب سے پاکستان پر بار ہا یہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ طالبان لیڈروں اور جنگجوؤں کو پناہ فراہم کرتا ہے۔ جبکہ پاکستانی قیادت ایسے تمام الزامات کو مسترد کرتی ہے۔