جمعے کے روز طالبان نے کہا ہے کہ افغانستان کے پانچ بڑے صوبائی دارالحکومتوں پر طالبان کا مکمل قبضہ ہو گیا ہے۔ ممتاز کمانڈر اسماعیل خان کو طالبان نے گرفتار کرنے کے بعد رہا کر دیا۔
بڑے شہروں، جنوب میں قندھار، مغرب میں ہرات، شمال مشرق میں قلعہ نو، جنوب میں لشکر گاہ اور حکمت عملی کے لحاظ سے اہم شہر غزنی پر کنٹرول نے دیگر نسبتاً چھوٹے صوبائی دارالحکومتوں کے گرد گھیرا تنگ کرنے میں طالبان کی مدد کی ہے۔
ان میں جنوبی صوبے اورزگان کا دارالحکومت ترنکوٹ، وسطی صوبے غور کا دارالحکومت فیروز کوہ اور مشرقی صوبے لوگر کا دارالحکومت، پلِ عالم شامل ہیں۔ پلِ عالم صدر اشرف غنی کا آبائی شہر بھی ہے۔
صوبوں کی کونسل کے سربراہ کے مطابق جمعے کو جنوبی صوبے زابل کا دارالحکومت قلات بھی طالبان کے قبضے میں چلا گیا ہے۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق، امریکی فورسز کے انخلاء کے بعد ہرات پر طالبان کا کنٹرول امریکی صدر اشرف غنی کی حکومت کے لئے ایک بڑا دھچکہ ہے۔
لڑائی ختم ہوتے ہی ہرات کی سڑکوں پر خاموشی چھا گئی۔ ایرانی سرحد کے قریب چھ لاکھ کی آبادی کا یہ شہر ہرات ایک بڑا اقتصادی مرکز بھی ہے اور صدیوں سے فارسی ثقافت کا عکاس بھی۔
رائٹرز کے مطابق صوبائی کونسل کے رکن حبیب ہاشمی نے بتایا ہے کہ طالبان نے اعلان کیا تھا کہ وہ ہتھیار ڈال دینے والے کسی سرکاری عہدیدار کو نقصان نہیں پہنچائیں گے۔
اسی دوران ہاشمی کے مطابق سابق مجاہدین کمانڈر اور حامد کرزئی حکومت کے سابق وزیر ممتاز ملیشیا کمانڈر 70 سالہ سردار اسماعیل خان، ان کے متعدد اعلیٰ معاونین، صوبائی گورنر اور سیکیورٹی کے عہدیداروں کو ایک معاہدے کے تحت طالبان کے حوالے کر دیا گیا۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بھی اسماعیل خان کے حوالے کئے جانے کی تصدیق کی۔ تاہم، بعد کی خبروں میں کہا گیا کہ طالبان نے اسماعیل خان کو رہا کر دیا ہے۔
اسماعیل خان کو 'شیرِ ہرات' کہا جاتا ہے۔ افغانستان کی جنگوں میں ان کی شمولیت 1979 سے اس وقت سے ہے جب حکومت مخالف بغاوت، سوویت یونین کی افغانستان میں مداخلت کا سبب بنی تھی۔
گزشتہ ہفتے ایک مرتبہ پھر ان کے اگلے محاذ پر نمودار ہونے سے ہرات کو درپیش خطرے کی نشاندہی ہوئی تھی۔
طالبان کی مسلسل فتوحات اس باغی گروپ کو افغان دارالحکومت کابل کے نزدیک کرتی جا رہی ہیں جہاں صدر اشرف غنی کی حکومت صورتِ حال کے بارے میں میڈیا کے سوالوں کا جواب نہیں دے رہی۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے جمعے کی صبح ایک بیان میں کہا تھا کہ افغانستان کے 34 میں سے 16 صوبوں پر طالبان کا کنٹرول ہے۔
مجاہد نے خبر دار کیا کہ طالبان نے تمام صوبوں پر قبضے تک اپنے حملے جاری رکھنے کا عزم کیا ہے، چنانچہ افغان سیکیورٹی فورسز مزاحمت ختم کر دیں اور اپنی جانیں خطرے میں نہ ڈالیں۔