بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے عبوری وزیر اعظم ناصرالملک کی سربراہی میں منعقدہ ایک اجلاس منعقد ہوا ہے جس میں 17 اپریل کو بین الاقوامی عدالت انصاف میں مبینہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو سے متعلقہ کیس میں بھارت کی طرف سے دiے گئے دلائل کے بارے میں ایک بریفنگ دی گئی۔
میڈیا اطلاعات کے مطابق پاکستان بھارتی جواب کے سلسلے میں اس جمعرات کو اپنا دوسرا جواب الجواب داخل کرے گا۔
کلبھوش یاود کو پاکستان کی ایک فوجی عدالت نے جاسوسی کے جرم میں موت کی سزا دی تھی جس کے بعد کلبھوش نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے رحم کی اپیل کر رکھی ہے۔ اس اپیل پر تاحال کوئی فیصلہ سامنے نہیں آیا ہے۔
تاہم بھارت یہ معاملہ عالمی عدالت انصاف میں لے گیا جہاں بھارت نے الزام لگایا کہ پاکستانی حکومت نے کلبھوشن یادو تک بھارت کو قونصلر رسائی دینے سے انکار کر کے جینوا کنونشن کی خلاف ورزی کی ہے۔
عالمی عدالت انصاف نے پاکستان سے کہا ہے کہ کلبھوش کی سزائے موت پر اُس وقت تک عمل درآمد روک دیا جائے جب تک وہ اس کیس کا فیصلہ نہیں کر لیتی۔
بھارت کے الزام کے جواب میں پاکستان نے عدالت میں یہ مؤقف پیش کیا کہ قونصلر رسائی صرف قانونی طور پر ملک میں داخل ہونے والے افراد کو دی جا سکتی ہے اور چونکہ بھارتی حکومت نے خود یہ اقرار کیا ہے کہ کلبھوش اپنے اصل نام کے بجائے فرضی نام پر پاکستان میں داخل ہوا تھا، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ جاسوسی کی غرض سے پاکستان آیا اور ایسی صورت حال میں اُس پر جنیوا کنونشن کا اطلاق نہیں ہوتا۔
پاکستان کی طرف اس کیس کی پیروی خاور قریشی کر رہے ہیں۔ اُنہوں نے اجلاس کے دوران عبوری وزیر اعظم ناصرالملک کو کیس کے بارے میں تفصیلی بریفنگ دی جس میں مبینہ طور پر اٹارنی جنرل خالد جاوید خان اور دیگر اعلیٰ سرکاری اہکار بھی شریک تھے۔
خیال ہے کہ پاکستانی وکیل خاور قریشی کی طرف سے جواب الجواب کے بعد عالمی عدالت انصاف اس کیس کی باقاعدہ سماعت کا آغاز کرے گی۔ تاہم یہ سماعت عالمی عدالت انصاف کی دوسرے مقدمات میں مصروفیت کے باعث آئیندہ سال موسم گرما سے قبل ممکن نہیں ہو پائے گی۔