پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت نے توہینِ مذہب کے ایک مجرم کے دورانِ قید معمولات کی تفصیل طلب کی ہے۔
مجرم انور کینیتھ کو 2001ء میں اس جرم کا ارتکاب کرنے پر ماتحت عدالت نے سزائے موت سنائی تھی اور اس وقت وہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کی جیل میں قید ہے۔
مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والا یہ شخص ماتحت عدات کے سامنے اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے یہ موقف اپناتا رہا ہے کہ اس نے کوئی غلط کام نہیں کیا اور وہ سزا کے خلاف اس بنا پر اپیل نہیں کرے گا کیونکہ اسے کچھ نہیں ہو سکتا۔
تاہم برسوں بعد اس نے سپریم کورٹ میں سزا کے خلاف اپیل دائر کرتے ہوئے موقف اپنایا ہے کہ وہ بے گناہ ہے۔
منگل کو عدالتِ عظمیٰ کے دو رکنی بینچ نے اس قیدی کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے کہا کہ موت کی سزا، بڑی سزا ہے لہذا اس بات کا تعین ضروری ہے کہ آیا مجرم کی ذہنی حالت درست ہے یا نہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ انور کینیتھ نے 16 سال قبل لاہور میں ایسے پمفلٹ تقسیم کیے تھے جن میں مبینہ طور پر حضرت عیسیٰ کے ظہور کی خبر تحریر تھی اور وہ ایسا دعویٰ کرتا تھا کہ اسے خدا کی طرف سے پیغامات موصول ہوتے ہیں۔
قبل ازیں ماتحت عدالتوں میں اس مقدمے پر دلائل دیتے ہوئے پنجاب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل محمد جعفر یہ کہہ چکے ہیں کہ انور نے خود کو خدا کا پیامبر ہونے کے بارے میں کئی ملکی و غیر ملکی اہم شخصیات بشمول اسرائیل کے اس وقت کے وزیراعظم کو خطوط بھی ارسال کیے۔
غیر سرکاری موقر تنظیم 'انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان' سے وابستہ ندیم انتھونی ایک وکیل ہیں اور وہ انور سے چند بار جیل میں ملاقاتیں بھی کر چکے ہیں۔
بدھ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ خوش آئند بات ہے کہ سپریم کورٹ نے اس طرف توجہ دی کیونکہ خاص طور پر توہینِ مذہب کے ملزمان کی ذہنی حالت کا تعین کیا جانا ضروری ہے۔
"یہ الزام اتنا سنجیدہ ہے کہ یہ ضرورت بن جاتی ہے کہ دیکھ لیا جائے کہ اس بندے کی ذہنی حالت ٹھیک ہے یا نہیں۔ کیونکہ جو بندہ ہوش و حواس میں ہو گا وہ اس طرح کا کام نہیں کر سکتا کہ کسی مذہب کے بارے میں کچھ بھی غلط کہے۔ میں اس سے دو تین بار ملا ہوں جیل میں تو اس سے جو گفتگو ہوئی، اس سے مجھے بھی اندازہ ہوا بطور ایک قانون دان کے کہ یہ اس معیار پر پورا نہیں اترتا کہ اس کو اتنی بڑی سزا دی جائے اس کی ذہنی حالت کو دیکھتے ہوئے۔"
ان کا کہنا تھا کہ ماتحت عدالتوں میں مقدمات کو جلد نمٹانے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس بات پر توجہ نہیں دی جاتی کہ ملزم کی ذہنی حالت کیا ہے۔
عدالتِ عظمیٰ کے دو رکنی بینچ میں شامل جسٹس دوست محمد خان نے بھی اپنے ریمارکس میں یہ کہا تھا کہ انور کینیتھ کھلے عام توہینِ مذہب کا ارتکاب کرتا رہا اور اس کا یہ عمل اس کی ذہنی حالت کو بھی مشکوک بناتا ہے۔ ان کے بقول ماتحت عدالت بھی اس شخص کی ذہنی حالت کی جانچ کا حکم دے سکتی تھی۔