پاکستان اور بھارت نے عوامی و تجارتی روابط کے فروغ کے لیے ایک دوسرے کے شہریوں کو ویزوں کے اجراء میں رعائتیں دینے پر اتفاق کیا ہے اور اس بارے میں معاہدے پر جلد دستخط کر دیئے جائیں گے۔
وفاقی وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے بھارتی سیکرٹری داخلہ راج کمار سنگھ اور اُن کے وفد سے جمعہ کو اسلام آباد میں ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ویزوں کے اجراء کے نئے طریقہ کار پر عمل درآمد سے متعلق بعض اُمور کو حتمی شکل دینے کا کام جاری ہے۔
’’ہم نے اصولی طور پر اتفاق کیا ہے کہ (ویزوں کے اجراء میں نرمی کے معاہدے پر) تھوڑے ہی عرصے میں دستخط کریں گے۔‘‘
رحمٰن ملک نے آر کے سنگھ کے توسط سے اپنے بھارتی ہم منصب پی چدمبرم کو دورہِ پاکستان کی دعوت بھی دی۔
اُنھوں نے بتایا کہ بھارتی وفد نے ممبئی حملوں میں مبینہ طور پر ملوث پاکستانی شہری اور کالعدم تنظیم لشکر طیبہ کے بانی رہنما حافظ سعید کے بارے میں مزید دستاویزات بھی پاکستان حکام کو فراہم کی ہیں، جن کا جائزہ لینے کے بعد ہی اس کے بارے میں پاکستان کے ردعمل کا اظہار کیا جائے گا۔
’’میں نے یہ ہی کہا ہے کہ اگر کوئی ٹھوس چیز ہے تو اس کو ہم دیکھیں گے، محض کہی سنی باتوں اور ٹھوس شواہد کے بغیر کسی بھی چیز پر ایکشن نہیں لیا جا سکتا۔‘‘
پاکستانی وزیر داخلہ نے بھارت پر زور دیا کہ الزام تراشی کے سلسلے کو ترک کرکے دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کے موقف کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
اُدھر پاک بھارت سیکرٹری داخلہ کی سطح پر ہونے والی دو روزہ بات چیت کے اختتام پر جمعہ جاری کیے گئے مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ممبئی حملوں سے متعلق پاکستان میں جاری تحقیقات کا جائزہ لینے کے لیے بھارتی عدالتی کمیشن کے دورے پر بھی اتفاق ہو گیا ہے اور اس سلسلے میں انتظامات کو سفارتی سطح پر حتمی شکل دی جائے گی۔
اعلامیہ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ دہشت گردی ناصرف علاقائی امن و سلامتی بلکہ پاک بھارت تعلقات کی مکمل بحالی کے لیے بھی خطرہ ہے اس لیے دونوں ممالک اس کے انسداد کی کوششیں جاری رکھیں گے۔
دو روزہ مذاکرات میں بھارتی وفد کی سربراہی راج کمار سنگھ جبکہ پاکستان وفد کی قیادت خواجہ صدیق اکبر نے کی، اور بات چیت کے دوران پاکستانی اور بھارتی وفود نے ایک دوسرے کے ملک میں زیر حراست ماہی گیروں اور قیدیوں کی جلد رہائی کو یقینی بنانے کے لیے تجاویز کا بھی تبادلہ کیا۔
گزشتہ ایک سال کے دوران پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں نمایاں بہتری آئی ہے اور تجارت کے علاوہ مختلف تصفیہ طلب مسائل پر مذاکرات کے کئی دور بھی ہو چکے ہیں۔