پاکستان کے قبائلی وزیرستان میں شدت پسند کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے دو مختلف دھڑوں کے درمیان لڑائی کا سلسلہ اب بھی جاری ہے اور مقامی ذرائع کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں میں ہونے والی تازہ جھڑپوں میں ایک درجن سے زائد مشتبہ جنگجو مارے جا چکے ہیں۔
شمالی و جنوبی وزیرستان کی سرحد پر واقع علاقے شوال میں اطلاعات کے مطابق جنگجو کمانڈر خان سید سجنا اور شہریار محسود کے گروپوں کے درمیان تازہ جھڑپیں منگل کو شروع ہوئیں جن میں دونوں جانب سے بھاری ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا۔
قبل ازیں بتایا گیا تھا کہ ان دونوں گروپوں کے درمیان صلح کروا دی گئی ہے لیکن چند ہی دنوں کے وقفے سے ایک بار پھر ان متحارب گروہوں میں جھڑپیں شروع ہو گئیں۔
افغان سرحد سے ملحقہ ان قبائلی علاقوں تک ذرائع ابلاغ کی رسائی نہ ہونے کی وجہ سے یہاں ہونے والے جانی نقصانات کی آزاد ذرائع سے تصدیق تقریباً ناممکن ہے۔
ان ہی دونوں گروپوں میں گزشتہ ماہ بھی لڑائی اور ایک دوسرے پر وقتاً فوقتاً حملوں کا سلسلہ شروع ہوا تھا جس میں دونوں جانب سے پچاس سے زائد افراد مارے گئے تھے۔
بتایا جاتا ہے کہ ان گروپوں میں اختلاف تنظیم کی امارات کے معاملے پر پیدا ہوا تھا۔ گزشتہ نومبر میں ایک ڈرون حملے میں حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد خان سید سجنا کالعدم تحریک طالبان کی قیادت کے لیے ایک مضبوط امیدوار سمجھا جاتا تھا لیکن طالبان نے تنظیم کی سربراہی سوات سے تعلق رکھنے والے شدت پسند ملا فضل اللہ کو سونپ دی۔
پاکستان کی مرکزی حکومت نے ملک سے دہشت گردی و انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے شدت پسندوں سے مذاکرات کا سلسلہ رواں سال فروری میں شروع کیا تھا لیکن سرکاری مذاکراتی کمیٹٰی اور طالبان شوریٰ کے درمیان صرف ایک براہ راست ملاقات کے بعد یہ سلسلہ بھی تعلطل کا شکار ہے۔
طالبان نے مذاکراتی عمل کو تقویت دینے کے لیے یکم مارچ سے ایک ماہ کے لیے فائر بندی کا اعلان کیا تھا جس میں بعد ازاں دس روز کی توسیع کر دی گئی۔ لیکن گزشتہ ماہ طالبان نے حکومت پر مذاکرات میں غیر سنجیدگی کا الزام عائد کرتے ہوئے فائر بندی میں مزید توسیع کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ وہ مذاکراتی عمل میں نہ صرف سنجیدہ ہے بلکہ اس میں پیش رفت کے لیے ایک درجن سے زائد طالبان کے غیر عسکری ساتھیوں کو بھی چھوڑ چکی ہے۔
مبصرین شروع ہی سے مذاکراتی عمل پر شک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہتے رہے ہیں کہ طالبان اپنے آپسی اختلافات کی وجہ سے انتشار کا شکار ہیں اور وہ مذاکراتی عمل کو صرف تاخیری حربے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔
شمالی و جنوبی وزیرستان کی سرحد پر واقع علاقے شوال میں اطلاعات کے مطابق جنگجو کمانڈر خان سید سجنا اور شہریار محسود کے گروپوں کے درمیان تازہ جھڑپیں منگل کو شروع ہوئیں جن میں دونوں جانب سے بھاری ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا۔
قبل ازیں بتایا گیا تھا کہ ان دونوں گروپوں کے درمیان صلح کروا دی گئی ہے لیکن چند ہی دنوں کے وقفے سے ایک بار پھر ان متحارب گروہوں میں جھڑپیں شروع ہو گئیں۔
افغان سرحد سے ملحقہ ان قبائلی علاقوں تک ذرائع ابلاغ کی رسائی نہ ہونے کی وجہ سے یہاں ہونے والے جانی نقصانات کی آزاد ذرائع سے تصدیق تقریباً ناممکن ہے۔
ان ہی دونوں گروپوں میں گزشتہ ماہ بھی لڑائی اور ایک دوسرے پر وقتاً فوقتاً حملوں کا سلسلہ شروع ہوا تھا جس میں دونوں جانب سے پچاس سے زائد افراد مارے گئے تھے۔
بتایا جاتا ہے کہ ان گروپوں میں اختلاف تنظیم کی امارات کے معاملے پر پیدا ہوا تھا۔ گزشتہ نومبر میں ایک ڈرون حملے میں حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد خان سید سجنا کالعدم تحریک طالبان کی قیادت کے لیے ایک مضبوط امیدوار سمجھا جاتا تھا لیکن طالبان نے تنظیم کی سربراہی سوات سے تعلق رکھنے والے شدت پسند ملا فضل اللہ کو سونپ دی۔
پاکستان کی مرکزی حکومت نے ملک سے دہشت گردی و انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے شدت پسندوں سے مذاکرات کا سلسلہ رواں سال فروری میں شروع کیا تھا لیکن سرکاری مذاکراتی کمیٹٰی اور طالبان شوریٰ کے درمیان صرف ایک براہ راست ملاقات کے بعد یہ سلسلہ بھی تعلطل کا شکار ہے۔
طالبان نے مذاکراتی عمل کو تقویت دینے کے لیے یکم مارچ سے ایک ماہ کے لیے فائر بندی کا اعلان کیا تھا جس میں بعد ازاں دس روز کی توسیع کر دی گئی۔ لیکن گزشتہ ماہ طالبان نے حکومت پر مذاکرات میں غیر سنجیدگی کا الزام عائد کرتے ہوئے فائر بندی میں مزید توسیع کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ وہ مذاکراتی عمل میں نہ صرف سنجیدہ ہے بلکہ اس میں پیش رفت کے لیے ایک درجن سے زائد طالبان کے غیر عسکری ساتھیوں کو بھی چھوڑ چکی ہے۔
مبصرین شروع ہی سے مذاکراتی عمل پر شک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہتے رہے ہیں کہ طالبان اپنے آپسی اختلافات کی وجہ سے انتشار کا شکار ہیں اور وہ مذاکراتی عمل کو صرف تاخیری حربے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔