پاکستان میں وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی خطے ’فاٹا‘ میں 14 اگست سے مقامی حکومتوں کے نظام کے قیام کا اعلان کیا جا رہا ہے۔
ان علاقوں میں شدت پسند عناصر کی پرتشدد کارروائیاں ملک کے لیے ایک بڑا مسئلہ بنی ہوئی ہیں اور دہشت گردوں کی سرکوبی کے لیے مسلسل فوجی آپریشن بھی کیے جا رہے ہیں۔
لیکن ناقدین روز اول سے ان خدشات کا اظہار کرتے آئے ہیں کہ فوجی کارروائیوں کے منطقی انجام سے قبل قبائلی علاقوں کے سیاسی انتظامی ڈھانچے میں اصلاحات ناگزیر ہیں ورنہ تمام کاوش رائیگاں چلی جائے گی۔
ایسی صورت حال میں فاٹا کے اراکین پارلیمان اپنے علاقوں میں مقامی حکومتوں کے قیام کے فیصلے کو خوش آئند اور ایک اہم پیش رفت قرار دے رہے ہیں۔
فاٹا سے تعلق رکھنے والے وزیر مملکت سینیٹر عباس خان آفریدی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ صدر آصف علی زرداری ’یوم آزادی‘ کے موقع پر اس اہم پیش رفت کا اعلان کریں گے۔
’’14 اگست سے اس کی شروعات ہوں گی، ہم تو خوش ہیں کہ وہاں کچھ تبدیلی آئے۔ وہاں سیاسی نظام میں جو خرابیاں ہیں وہ دور ہوں گی اور اختیارات عام لوگوں کے ہاتھ میں آئیں گے اور انصاف نچلی سطح پر فراہم ہو سکے گا… ہم نے حکومت سے کہا ہے کہ اس عمل میں تیزی لائی جائے۔‘‘
بعض قبائلی رہنماؤں کی طرف سے فاٹا میں نئے سیاسی نظام کی مخالفت کا جواب دیتے ہوئے سینیٹر عباس خان آفریدی نے کہا کہ وہ درحقیقت علاقے کی ترقی نہیں چاہتے۔
’’وہ اپنے تھوڑے سے فائدے کے لیے ان (علاقوں) کو پسماندہ اور اندھیروں میں رکھنا چاہتے ہیں۔‘‘
پاکستان کے سابق فوجی حکمران پرویز مشرف کے دور میں متعارف کرائے گئے مقامی حکومتوں کے اس نظام کے خالقوں میں سابق وفاقی وزیر دانیال عزیز بھی شامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ فاٹا میں یہ سیاسی نظام نافذ کرنے کا فیصلہ بہت پہلے ہی کر لیا گیا تھا مگر اس خطے کی سیاسی انتظامیہ اور قبائلی رہنماؤں کی مخالفت کے باعث پیش رفت نہ ہو سکی۔
’’طاقت کا استعمال صرف 20 فیصد مسئلے کا حل ہوتا ہے، اصل میں 80 فیصد مسئلے کا سیاسی حل نکالنا ہوتا ہے۔ جب تک مقامی لوگوں میں حکمرانی میں شمولیت کا احساس پیدا نا کیا جائے اور ان کے مالکانہ حقوق کو یقینی نا بنایا جائے تو اس بات کا زیادہ امکان ہوتا ہے کہ وہ عسکریت پسندوں کا ساتھ دیں۔‘‘
دانیال عزیز کہتے ہیں کہ قبائلی علاقے ہوں یا پھر ملک کا کوئی بھی حصہ مقامی نظام حکومت ہی دیرپا استحکام کو یقینی بنا سکتا ہے۔
’’اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ڈنکے کی چوٹ پر آپ وہاں سپاہی بھیج کر وہاں امن عامہ قائم کر سکتے ہیں تو یہ بے وقوفی ہے۔ نا یہ کراچی میں ہو سکا ہے، نا یہ بلوچستان، مالاکنڈ ڈویژن اور نا ہی فاٹا میں ہو سکا ہے۔‘‘
فاٹا میں مقامی حکومتوں کا نظام متعارف کرانے کا خیر مقدم اپنی جگہ مگر اس کی کامیابی کے بارے میں عمومی تحفظات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ جس خطے میں انسداد پولیو کی سرکاری مہم عسکریت پسندوں کے خوف سے نہیں چلائی جا سکتی وہاں پر کھلے عام سیاسی سرگرمیاں اور شدت پسند عناصر کی مخالفت یقیناً سیاسی اصلاحات کے لیے بڑے چیلنج ثابت ہوں گے۔
ان علاقوں میں شدت پسند عناصر کی پرتشدد کارروائیاں ملک کے لیے ایک بڑا مسئلہ بنی ہوئی ہیں اور دہشت گردوں کی سرکوبی کے لیے مسلسل فوجی آپریشن بھی کیے جا رہے ہیں۔
لیکن ناقدین روز اول سے ان خدشات کا اظہار کرتے آئے ہیں کہ فوجی کارروائیوں کے منطقی انجام سے قبل قبائلی علاقوں کے سیاسی انتظامی ڈھانچے میں اصلاحات ناگزیر ہیں ورنہ تمام کاوش رائیگاں چلی جائے گی۔
ایسی صورت حال میں فاٹا کے اراکین پارلیمان اپنے علاقوں میں مقامی حکومتوں کے قیام کے فیصلے کو خوش آئند اور ایک اہم پیش رفت قرار دے رہے ہیں۔
فاٹا سے تعلق رکھنے والے وزیر مملکت سینیٹر عباس خان آفریدی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ صدر آصف علی زرداری ’یوم آزادی‘ کے موقع پر اس اہم پیش رفت کا اعلان کریں گے۔
’’14 اگست سے اس کی شروعات ہوں گی، ہم تو خوش ہیں کہ وہاں کچھ تبدیلی آئے۔ وہاں سیاسی نظام میں جو خرابیاں ہیں وہ دور ہوں گی اور اختیارات عام لوگوں کے ہاتھ میں آئیں گے اور انصاف نچلی سطح پر فراہم ہو سکے گا… ہم نے حکومت سے کہا ہے کہ اس عمل میں تیزی لائی جائے۔‘‘
بعض قبائلی رہنماؤں کی طرف سے فاٹا میں نئے سیاسی نظام کی مخالفت کا جواب دیتے ہوئے سینیٹر عباس خان آفریدی نے کہا کہ وہ درحقیقت علاقے کی ترقی نہیں چاہتے۔
’’وہ اپنے تھوڑے سے فائدے کے لیے ان (علاقوں) کو پسماندہ اور اندھیروں میں رکھنا چاہتے ہیں۔‘‘
پاکستان کے سابق فوجی حکمران پرویز مشرف کے دور میں متعارف کرائے گئے مقامی حکومتوں کے اس نظام کے خالقوں میں سابق وفاقی وزیر دانیال عزیز بھی شامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ فاٹا میں یہ سیاسی نظام نافذ کرنے کا فیصلہ بہت پہلے ہی کر لیا گیا تھا مگر اس خطے کی سیاسی انتظامیہ اور قبائلی رہنماؤں کی مخالفت کے باعث پیش رفت نہ ہو سکی۔
’’طاقت کا استعمال صرف 20 فیصد مسئلے کا حل ہوتا ہے، اصل میں 80 فیصد مسئلے کا سیاسی حل نکالنا ہوتا ہے۔ جب تک مقامی لوگوں میں حکمرانی میں شمولیت کا احساس پیدا نا کیا جائے اور ان کے مالکانہ حقوق کو یقینی نا بنایا جائے تو اس بات کا زیادہ امکان ہوتا ہے کہ وہ عسکریت پسندوں کا ساتھ دیں۔‘‘
دانیال عزیز کہتے ہیں کہ قبائلی علاقے ہوں یا پھر ملک کا کوئی بھی حصہ مقامی نظام حکومت ہی دیرپا استحکام کو یقینی بنا سکتا ہے۔
’’اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ڈنکے کی چوٹ پر آپ وہاں سپاہی بھیج کر وہاں امن عامہ قائم کر سکتے ہیں تو یہ بے وقوفی ہے۔ نا یہ کراچی میں ہو سکا ہے، نا یہ بلوچستان، مالاکنڈ ڈویژن اور نا ہی فاٹا میں ہو سکا ہے۔‘‘
فاٹا میں مقامی حکومتوں کا نظام متعارف کرانے کا خیر مقدم اپنی جگہ مگر اس کی کامیابی کے بارے میں عمومی تحفظات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ جس خطے میں انسداد پولیو کی سرکاری مہم عسکریت پسندوں کے خوف سے نہیں چلائی جا سکتی وہاں پر کھلے عام سیاسی سرگرمیاں اور شدت پسند عناصر کی مخالفت یقیناً سیاسی اصلاحات کے لیے بڑے چیلنج ثابت ہوں گے۔