پاکستان اور برطانیہ نے افغانستان میں دیرپا امن کو یقینی بنانے کے لیے تعاون کو مزید مستحکم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
اس امر پر اتفاق منگل کو پاکستان کے مشیر برائے قومی سلامتی ناصر خان جنجوعہ اور برطانیہ کے خصوصی ایلچی برائے پاکستان و افغانستان گیریتھ بیلی کے درمیان اسلام آباد میں ہونے والی ملاقات میں کیا گیا۔
اس موقع پر ناصر جنجوعہ کا اصرار تھا کہ افغانستان میں امن لانے کے لیے کسی اور کی بجائے موجودہ افغان حکومت ہی اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔
انھوں نے علاقائی امن و سلامتی کے لیے اپنے ملک کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ہمیشہ افغان امن عمل کے لیے شروع کیے گئے تمام اقدام کی حمایت کرتا آیا ہے اور افغانستان میں امن خود پاکستان کے لیے کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔
طرفین نے اتفاق کیا کہ پاکستان اور افغانستان کو حکومتی، سفارتی، عسکری، انٹیلی جنس اور عوامی سطح پر تمام رابطوں کو بحال کرنا چاہیے۔
برطانوی سفارتکار بیلی نے اس موقع پر انسداد دہشت گردی کے لیے پاکستان کی کوششوں کو سراہتے ہوئے افغانستان میں پائیدار امن کے لیے اپنے ملک کے مثبت کردار کو اجاگر کیا۔
ایک روز قبل ہی خصوصی برطانوی ایلچی نے اسلام آباد میں تعینات افغان سفیر عمر زاخیلوال سے بھی ملاقات کی تھی اور اس میں بھی سفیر کے بقول حالیہ دہشت گرد واقعات، پاکستان اور افغانستان کے تعلقات، امن عمل اور دیگر باہمی دلچسپی کے امور پر بات چیت کی گئی۔
پاکستان یہ کہتا آیا ہے کہ افغان تنازع کا کوئی فوجی حل نہیں اور اسے بات چیت کے ذریعے ہی حل کیا جا سکتا ہے جس میں خود افغانوں کو ہی اہم کردار ادا کرنا ہے۔
سلامتی کے امور کے سینیئر تجزیہ کار سید نذیر نے منگل کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ افغان حکومت براہ راست طالبان سے بات چیت کی خواہش ظاہر کرتی رہی ہے لیکن طالبان اسے ایک کمزور حکومت تصور کرتے ہوئے اس ضمن میں پیش رفت کرتے دکھائی نہیں دیتے۔
"طالبان افغان حکومت کو بااختیار نہیں سمجھتے جب ایسا نہیں سمجھتے تو ظاہر ہے اس معاملے میں کسی کو ضامن کا کردار اد کرنا ہوگا اور یہ چین اور امریکہ ہی کر سکتے ہیں جس طرح چار فریقی مشاورت گروپ کی سطح پر بات چیت کا عمل تھا اسی طرح کا کوئی عمل ہو، میرے خیال میں بڑے ممالک کی شمولیت سے ہی کوئی پیش رفت ممکن ہے۔"
ان کا کہنا تھا کہ دوسری طرف پاکستان اس بارے میں بھی کوششیں کرتا دکھائی دیا ہے کہ خطے کے ممالک جیسے کہ ایران اور روس کو بھی مذاکراتی عمل میں شامل کیا جائے اور ان کے بقول زیادہ ممالک کی شمولیت سے بات چیت کے عمل کے موثر ہونے کا زیادہ امکان ہے۔