واشنگٹن/اسلام آباد —
وزیرخارجہ حنا ربانی کھر نے کہا ہے کہ واشنگٹن آنے کا اُن کا مقصد پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کو درپیش مشکلات سے نبردآزما ہونے اور اِن میں بہتری کی طرف حالیہ مثبت پیش رفت کو مستحکم کرنے پر مفصل بات چیت کرنا ہے۔
پاکستانی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ حنا ربانی کھر نے ان خیالات کا اظہارجمعرات کو امریکی کانگریس میں سینٹ کی سلیکٹ کمیٹی برائے انٹیلی جنس کے ممبران کے ساتھ ملاقات میں کیا۔ بات چیت میں کمیٹی کے چیئرمین ڈین فائنسٹین بھی موجود تھے۔
’’وزیرخارجہ کھر نے سینیٹرز کو بتایا کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ تعلقات کوانتہائی اہم سمجھتا ہے اور پاکستانی عوام چاہتے ہیں کہ انسداد دہشت گردی کی اُن کی کوششوں اور قربانیوں کو سراہا اوراُن کا اعتراف کیا جائے۔‘‘
پاکستانی وزیر خارجہ کے بقول امریکہ کا اُن کے ملک کی ترجیحات، خدشات اور مجبوریوں کو بہتر طور پرسمجھنا ضروری ہے۔
’’اُنھوں نے سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کے ممبران کو آگاہ کیا کہ افغانستان کے معاملے پرامریکہ کے ساتھ پاکستان ایک خالص مکالمے کا ارادہ رکھتا ہے۔‘‘
دفتر خارجہ کے بیان کے مطابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے سہ فریقی ڈھانچے کو استعمال کرتے ہوئے افغانوں کی قیادت میں اُن کی مرضی کے مطابق مفاہمتی عمل کو فروغ دینے کے پاکستان کے موقف کو دہرایا۔
’’اُنھوں نے ایک بار پھر کہا کہ پاکستان افغان مسئلے کے حل کی کوششوں کا ایک اہم حصہ ہے، اور کہا کہ اس غلط تاثر کو درست کرنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان مسئلے کا حصہ ہے۔‘‘
پاکستانی وزیر خارجہ نے امریکی سینیٹ کے ارکان سے گفتگو میں ایک بار پھر کہا کہ ایک مستحکم اور خوشحال افغانستان میں ہی پاکستان کے قلیل اور طویل المدتی مفادات پنہاں ہیں۔
دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ امریکہ کے قیام کے دوران وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کی دیگر اہم امریکی قانون سازوں، صدر باراک اوباما کی انتظامیہ کے نمائندوں، واشنگٹن میں غیر سرکاری اداروں کے رہنماؤں اور میڈیا سے بھی ملاقاتیں کریں گی۔
پاکستانی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ حنا ربانی کھر نے ان خیالات کا اظہارجمعرات کو امریکی کانگریس میں سینٹ کی سلیکٹ کمیٹی برائے انٹیلی جنس کے ممبران کے ساتھ ملاقات میں کیا۔ بات چیت میں کمیٹی کے چیئرمین ڈین فائنسٹین بھی موجود تھے۔
’’وزیرخارجہ کھر نے سینیٹرز کو بتایا کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ تعلقات کوانتہائی اہم سمجھتا ہے اور پاکستانی عوام چاہتے ہیں کہ انسداد دہشت گردی کی اُن کی کوششوں اور قربانیوں کو سراہا اوراُن کا اعتراف کیا جائے۔‘‘
پاکستانی وزیر خارجہ کے بقول امریکہ کا اُن کے ملک کی ترجیحات، خدشات اور مجبوریوں کو بہتر طور پرسمجھنا ضروری ہے۔
’’اُنھوں نے سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کے ممبران کو آگاہ کیا کہ افغانستان کے معاملے پرامریکہ کے ساتھ پاکستان ایک خالص مکالمے کا ارادہ رکھتا ہے۔‘‘
دفتر خارجہ کے بیان کے مطابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے سہ فریقی ڈھانچے کو استعمال کرتے ہوئے افغانوں کی قیادت میں اُن کی مرضی کے مطابق مفاہمتی عمل کو فروغ دینے کے پاکستان کے موقف کو دہرایا۔
’’اُنھوں نے ایک بار پھر کہا کہ پاکستان افغان مسئلے کے حل کی کوششوں کا ایک اہم حصہ ہے، اور کہا کہ اس غلط تاثر کو درست کرنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان مسئلے کا حصہ ہے۔‘‘
پاکستانی وزیر خارجہ نے امریکی سینیٹ کے ارکان سے گفتگو میں ایک بار پھر کہا کہ ایک مستحکم اور خوشحال افغانستان میں ہی پاکستان کے قلیل اور طویل المدتی مفادات پنہاں ہیں۔
دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ امریکہ کے قیام کے دوران وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کی دیگر اہم امریکی قانون سازوں، صدر باراک اوباما کی انتظامیہ کے نمائندوں، واشنگٹن میں غیر سرکاری اداروں کے رہنماؤں اور میڈیا سے بھی ملاقاتیں کریں گی۔