طالبان کے ساتھ مفاہمت کے عمل کو فروغ دینے کے لیے پاکستان، افغانستان اور امریکہ نے سہ فریقی گروپ کی تشکیل پر اتفاق کیا ہے۔
اس پیش رفت کا اعلان اعلیٰ پاکستانی، امریکی اور افغان عہدے داروں پر مشتمل ’’کور گروپ‘‘ کے جمعہ کو اسلام آباد میں ہونے والے چھٹے اجلاس میں کیا گیا، جس میں افغانستان میں امن و استحکام کی کوششوں کا جائزہ لیا گیا۔
اجلاس کے بعد امریکی ایلچی مارک گروسمین، افغان نائب وزیر خارجہ جاوید لودن اور پاکستانی خارجہ سیکرٹری جلیل عباس جیلانی نے ایک مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تینوں ممالک افغانستان میں سیاسی مفاہمت کے عمل کی حوصلہ افزائی کے لیے طالبان کو قومی دھارے میں شامل کرنے کی کوششوں کو تیز کرنے پر متفق ہیں۔
پاکستانی خارجہ سیکرٹری نے بتایا کہ مذاکرات میں تینوں ممالک کے ماہرین پر مشتمل مجوزہ ذیلی سہہ فریقی گروپ اُن طالبان عسکریت پسندوں کو محفوظ راہداری فراہم کرنے کے امکانات کا جائزہ لے گا جو افغان امن مذاکرات میں شرکت کی خواہش رکھتے ہیں۔
افغان نائب وزیرِ خارجہ جاوید لودن نے مجوزہ گروپ کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی مفاہمت کے عمل کی کامیابی ناگزیر ہے تاکہ جو طالبان تشدد کی راہ ترک کے ایک باعزت زندگی گزرانا چاہتے ہیں انھیں عسکریت پسندوں کی صفوں سے دور کیا جاسکے۔
’’بات چیت کے خواہش مند طالبان کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے اور ان کی حوصلہ افزائی، انھیں محفوظ راہداری اور ایک ایسا ماحول فراہم کرنے کی ضرورت ہے جہاں وہ اپنے آپ کو محفوظ سمجھیں اور بلا خوف و خطر بات چیت میں شرکت کرسکیں۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ مجوزہ گروپ نیویارک میں قائم کیا جائے گا اور یہ اقوام متحدہ میں امریکہ، پاکستان اور افغانستان کے مستقل مندوبین پر مشتمل ہوگا۔
افغان نائب وزیرِ خارجہ نے کہا کہ اقوام متحدہ کی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل طالبان رہنماؤں کے ناموں کے اخراج کے سلسلے میں مجوزہ سہ فریقی گروپ کے توسط سے عالمی تنظیم کے ساتھ موثر رابطے قائم کرنے میں مدد ملے گی۔
’’بات چیت کی ضرورت اُن طالبان کے ساتھ ہے جن سے اب تک رابطے نہیں ہو سکے ہیں۔ اس ہی مقصد کے لیے میں اسلام آباد آیا ہوں اور مذاکرت میں دیگر فریقین کی طرف سے اس ضمن میں حمایت کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔‘‘
پاکستانی خارجہ سیکرٹری جلیل عباس کا کہنا تھا کہ پاکستان ہر اُس کوشش کی حمایت کرتا ہے جس کا مقصد افغانستان میں امن کا قیام ہے۔
’’اس عمل میں پہل افغانستان کو خود کرنی ہوگی اور ہماری (پاکستان کی) ذمہ داری ہرممکن طریقے سے اس عمل کو آسان بنانے کی ہو گی۔‘‘
امریکی نمائندے گروسمین نے بھی اپنے ملک کے موقف کو دہراتے ہوئے کہا کہ امریکہ افغانستان کے مستقبل پر بات چیت کی افغان کوششوں کو کی حمایت کرتا ہے۔
’’ہمارا موقف ہمیشہ واضح اور یکساں رہا ہے کہ اس طرح کے امن عمل کے لازمی نتائج میں طالبان اور دیگر شدت پسندوں کی القاعدہ سے لاتعلقی اور افغان آئین، خصوصاً خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ، کا احترام شامل ہونا چاہیئں۔‘‘