امریکہ کے سفیر ڈیوڈ ہیل نے بدھ کو پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی، جس میں سفیر نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے افغانستان اور جنوبی ایشیا سے متعلق اعلان کردہ پالیسی کے بارے میں آرمی چیف کو آگاہ کیا۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ’آئی ایس پی آر‘ سے جاری ایک بیان کے مطابق جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ پاکستان امریکہ سے کسی طرح کی مالی اعانت نہیں چاہتا لیکن پاکستان کے کردار کو تسلیم کیا جانا چاہیے۔
بیان کے مطابق پاکستانی فوج کے سربراہ نے کہا کہ افغانستان میں طویل عرصے سے جاری جنگ کو منطقی انجام تک پہنچانے اور کامیابی کے لیے تمام فریقوں کے درمیان تعاون اہم ہے۔
’آئی ایس پی آر‘ کے بیان کے مطابق امریکی سفیر نے کہا کہ اُن کا ملک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار کو سراہتا ہے اور افغانستان کے مسئلے کے حل میں پاکستان سے تعاون چاہتا ہے۔
جنرل باجوہ نے کہا کہ افغانستان میں امن پاکستان کے لیے بھی اتنا ہی اہم ہے جتنی کہ اس کی اہمیت کسی اور ملک کے لیے ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ اس بارے میں پاکستان کسی کو خوش کرنے کے لیے نہیں بلکہ اپنے ملکی مفاد میں ہر ممکن کوششیں جاری رکھے گا۔
واضح رہے کہ صدر ٹرمپ نے اپنے پالیسی بیان میں کہا تھا کہ امریکہ پاکستان میں دہشت گرد تنظیموں کے محفوظ ٹھکانوں پر مزید خاموش نہیں رہ سکتا اور اُنھوں نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ وہ تنظیمیں جو امریکی شہریوں کو قتل کرتی رہی ہیں، پاکستان اُن کو اپنی سرزمین پر پناہ دیتا آیا ہے۔
اُن کے اس بیان کے بعد امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل نے منگل کو پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ آصف سے بھی ملاقات کی تھی۔
منگل کو رات دیر گئے پاکستانی وزارت خارجہ سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ پاکستان اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیتا اور دہشت گردوں کی پاکستان میں محفوظ پناہ گاہوں کے ’غلط‘ دعوے کی بجائے امریکہ کو اس جنگ میں پاکستان سے تعاون کرنا چاہیے۔
اُدھر منگل کی شب پاکستان کی وفاقی کابینہ کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ صدر ٹرمپ کی افغانستان اور خطے سے متعلق پالیسی کے معاملے پر وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں تفصیلی غور کے بعد اس بارے میں پاکستان کا مفصل موقف پیش کیا جائے گا۔
ملک کی اعلیٰ سیاسی و عسکری قیادت پر مشتمل قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس جمعرات 24 اگست کو طلب کیا گیا، اس اجلاس کی صدارت وزیراعظم کرتے ہیں اور جب کہ تین مسلح افواج کے سربراہان، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی اور انٹیلی جنس ادارے ’آئی ایس آئی‘ کے سربراہ کے علاوہ دفاع، داخلہ، خزانہ اور وزیر خارجہ بھی اس کمیٹی کا حصہ ہوتے ہیں۔
تجزیہ کار بریگیڈئر ریٹائرڈ اسد منیر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان کو امریکہ کے ساتھ بیٹھ کر اس معاملے پر بات کرنی چاہیئے کہ جب ماضی میں اسلام آباد اور واشنگٹن دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تعاون کرتے رہے ہیں تو مستقبل میں بھی یہ اشتراک جاری رہ سکتا ہے۔
دریں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اپنے پہلے غیر ملکی دورے پر جمعرات کو سعودی عرب پہنچے، اپنے اس ایک روزہ دورے کے دوران وہ سعودی بادشاہ شاہ سلمان کے علاوہ ولی عہد شہزاد محمد بن سلمان سے ملاقاتوں میں دوطرفہ اُمور کے علاوہ علاقائی اور عالمی صورت حال پر بھی بات چیت کریں گے۔