پاکستان اور امریکہ کے درمیان ایبٹ آباد آپریشن کے بعد پیدا ہونے والی کشیدگی کے بعد وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے دورہ چین کا یہاں واشنگٹن میں ماہرین اور سینیٹ کے کئی اراکین گہری نظر سے جائزہ لے رہے ہیں ۔ جب کہ دوسری طرف سینیٹر جان کیری کا کہناہے کہ پاکستان کو امریکہ کے اپنے تعلقات معمول پر لانے کے لیے اب عملی اقدامات کرنے ہوں گے ۔
ایک ایسے وقت میں جب پاکستان اور امریکہ کے تعلقات نئی نئی رکاوٹوں سے سنبھلنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ سینیٹر جان کیری نے امریکی سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کی سماعت کے دوران امریکی اراکین سینیٹ کوپاکستانی قیادت سے اپنی بات چیت سے آگاہ کیا ۔
ان کا کہناتھا کہ میں نے پاکستانیوں کی شکایات بھی سنیں کہ ہمارے کیسے تعلقات ہیں ، ہم نے کیسے یہ کارروائی کی ، اور ان کی ملکی سیاست کی روشنی میں ان کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش کی ۔ کئی گھنٹوں کی بات چیت کے بعد ہم نے طے کیا کہ ہمارےدرمیان تعاون کتنا ضروری ہے اور ہمیں تعلقات بہتر بنانے کے لئے کیا اقدامات کرنے چاہئیں ۔ میں نے یہ بھی واضح کیا کہ ہمارے تعلقات کا اندازہ الفاظ یا ملاقاتوں سے نہیں بلکہ عملی اقدامات سے لگایا جائے گا اور اس کا آغاز آج پاکستان کی جانب سے( ایبٹ آباد آپریشن میں تباہ ہونے والے) ہمارے ہیلی کاپٹر کا پچھلا حصہ امریکی فوج کو واپس کرنے سے ہوگا ۔
سینیٹر کیری کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان اختلافات کو ہوا دینے کے بجائے تعاون اور مشترکہ مقاصد کو آگے بڑھانے کی بات کی جانی چاہئے۔ جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے جنوبی ایشیا سینٹر کے سربراہ والٹر اینڈرسن کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کو اپنے اصل مسائل کو نہیں بھولنا چاہئے ۔ ان کا کہناتھا کہ دونوں ملکوں میں حکومت کی سطح پر مخالفانہ جذبات سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے اور اصل مسائل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔
خارجہ امور کی کمیٹی کی اسی سماعت کے دوران وزیر اعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی کے دورہ چین اور پاک چین تعلقات کا پھیلاؤ اور گہرائی بھی زیر بحث آئے ۔
والٹر اینڈرسن کہتے ہیں کہ پاکستان اور چین کے تعلقات امریکہ کے لئے تشویشناک نہیں کیونکہ چین امریکہ اور بھارت سے تجارتی تعلقات کی قیمت پر پاکستان سے تعلقات مضبوط کرنا نہیں چاہے گا ۔
ان کا کہناتھاکہ پاکستان نے چین کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دی ہے ، چین کے اقتصادی تعلقات تیزی سے بھارت سے مضبوط ہو رہے ہیں ، ان کی دو طرفہ تجارت اب ساٹھ ارب ڈالر تک پہنچ رہی ہے ، اگلے چند برسوں میں یہ سو ارب تک پہنچ جائے گی ۔ بھارت چین کے لئے اتنا اہم ہے کہ وہ اس سے تعلقات خراب نہیں کرنا چاہے گا ، اور پاکستان کی وہ کتنی مدد کر سکتا ہے اس کی کچھ نہ کچھ حدود ہیں ۔
والٹر اینڈرسن کہتے ہیں کہ چین پاکستان میں سرمایہ کاری کے کچھ نئے منصوبے ضرور شروع کر سکتا ہے لیکن وہ پاکستان کو بھارت سے تعلقات بہتر بنانے اور دہشت گردی کے مسئلے سے نمٹنے کا مشورہ ہی دے گا ۔
ان کا کہنا تھا کہ کیونکہ دہشت گردی کے مسئلے کا انہیں بھی سامنا ہے ، ان کے ہاں ایک بڑی اور سرگرم ایغور آبادی ہے ، جن میں سے کئی دہشت گردی کے کیمپوں میں تربیت لے رہے ہیں ۔ چین ان کیمپوں کو بند کرانا چاہتا ہے ۔
پاکستان اور چین کے تعلقات کی نوعیت پاکستان اور امریکہ کے تعلقات سے کتنی مختلف اور پائیدار ہے ، اس کا انحصار عالمی معیشت اور جغرافیائی حقائق کی بنیاد پر ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کا مقصد امریکہ ، چین اور پاکستان میں مشترکہ ہے ، اور اس مسئلے کا حل نکالنے کے لئے بھی تینوں ملکوں کو مل کر کام کرنا ہوگا ۔