رسائی کے لنکس

پاکستان، امریکہ کے درمیان جوہری عدم پھیلاؤ پر مذاکرات


ڈاکٹر اے ایچ نیئر نے کہا کہ نیوکلیئر سپلائیرز گروپ کا حصہ بننا پاکستان کی اولین ترجیح ہے، کیونکہ بھارت کو امریکہ کے ساتھ جوہری معاہدے کے باعث ناصرف قانونی طور پر جوہری طاقت تسلیم کیا گیا ہے بلکہ اس کے رُتبے میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

امریکہ اور پاکستان نے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں اور ان کی ترسیل کے نظام کی ریاستی اور غیر ریاستی عناصر تک رسائی کو روکنے کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کیا ہے۔

دونوں ممالک نے جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنے سے متعلق اقوام متحدہ کی قرارداد 1540 پر عمل کرنے کے عزم کا بھی اظہار کیا۔

پاکستان کے دفتر خارجہ کی طرف سے منگل کو جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق پاکستان کے سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری اور امریکہ کے محکمہ خارجہ میں آرمز کنٹرول اور بین الاقوامی سکیورٹی کی معاون سیکرٹری روز گوٹے مِلر نے اسلام آباد میں پاک امریکہ سکیورٹی، اسٹریٹیجک استحکام اور جوہری عدم پھیلاؤ کے ورکنگ گروپ کے آٹھویں اجلاس کی مشترکہ صدارت کی۔

یہ اجلاس امریکہ اور پاکستان کے درمیان طویل المدت شراکت داری کے اسٹریٹیجک ڈائیلاگ کا حصہ ہے۔

پاکستانی وفد نے ایکسپورٹ کنٹرول تنظیموں خصوصاً نیوکلیئر سپلائیرز گروپ اور میزائل ٹیکنالوجی کنٹرول تنظیم کا مکمل رکن بننے کے لیے اپنی اہلیت کے بارے میں مکمل اعتماد کا اظہار کیا۔

امریکی وفد نے یہ اہلیت حاصل کرنے کے لیے پاکستان کی غیر معمولی کوششوں کا اعتراف کیا۔

جوہری پالیسی کے ماہر ڈاکٹر اے ایچ نیئر نے وائس امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ نیوکلیئر سپلائیرز گروپ کا حصہ بننا پاکستان کی اولین ترجیح ہے، کیونکہ بھارت کو امریکہ کے ساتھ جوہری معاہدے کے باعث ناصرف قانونی طور پر جوہری طاقت تسلیم کیا گیا ہے اور اسے جوہری ٹیکنالوجی اور مواد کی تجارت میں کئی استثنیٰ حاصل ہوئے ہیں بلکہ اس کے رُتبے میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

’’اور ساتھ ہی ساتھ اس کو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں ایک مستقل سیٹ دینے کی بات کی جا رہی ہے۔ یہ چیزیں پاکستان کو سیاسی طور پر بہت بڑے نقصان میں ڈال دیتی ہیں۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’’پاکستان کی سب سے پہلی کوشش یہی ہے کہ خود پاکستان کو یہ تمام چیزیں مل جائیں۔ مگر وہ اتنی آسانی سے نہیں ملنے والی کیونکہ جو ٹھپا لگا 2002 میں اے کیو خان نیٹ کی وجہ سے، اس کو امریکہ کے بہت سے حلقے اور خاص طور پر بھارتی لابی بہت استعمال کرتی۔‘‘

عالمی سطح پر پاکستان کے جوہری اثاثوں کے دہشت گردوں کے ہاتھ لگنے کے بارے میں بھی خاصی تشویش کا اظہار کیا جا چکا ہے۔

تاہم ڈاکٹر اے ایچ نیئر کا کہنا تھا کہ امریکی عہدیدار کئی مرتبہ پاکستان کی جوہری تنصیبات کے تحفظ کے لیے کیے گئے اقدامات کے بارے میں اطمینان کا اظہار کر چکے ہیں۔

اس اجلاس کا ایک اور اہم موضوغ جوہری ہتھیاروں میں استعمال ہونے والا مواد تھا جس پر دونوں ممالک کے درمیان اختلاف برقرار رہا۔

امریکہ نے اجلاس میں جوہری مواد کے ایٹمی ہتھاروں میں استعمال سے متعلق مذاکرات شروع کرنے کی ضرورت کا ذکر کیا، مگر پاکستان کا کہنا تھا کہ وہ جوہری مواد سے متعلق ایک وسیع تر معاہدے کی حمایت کرتا ہے جو ہتھیاروں کے موجودہ ذخیروں میں فرق کا بھی احاطہ کرے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اس موقف کا پہلے بھی اظہار کر چکا ہے اور امریکہ کو اس پر کوئی تعجب نہیں ہوا۔

پاکستان کا کہنا تھا اس کا موقف اس کے قومی سلامتی کے مفادات اور جنوبی ایشیا میں اسٹریٹیجک استحکام کے مقاصد کے عین مطابق ہے۔

اجلاس میں امریکی وفد نے اپنے جوہری ہتھاروں میں تخفیف کی کوششوں کی تفصیل سے پاکستان کو آگاہ کیا اور مزید جوہری دھماکے نہ کرنے کے اپنے عزم کا اعادہ کیا۔

پاکستان نے بھی ایک مرتبہ پھر اپنا یہ مستقل مؤقف دہرایا کہ علاقے میں وہ جوہری تجربات کرنے میں پہل نہیں کرے گا۔

XS
SM
MD
LG