امریکہ میں قید پاکستانی خاتون شہری ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بارے میں پاکستان کے ایک اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ انہیں دورانِ قید مبینہ طور پر جنسی طور پر ہراساں کیا گیا۔
پاکستانی اخبار 'ایکسپریس ٹربیون' نے ایک مراسلے کا متن بھی شائع کیا ہے جس کے لیے بتایا جاتا ہے کہ یہ ہیوسٹن میں پاکستانی قونصل خانے کی طرف سے اسلام آباد میں وزارتِ خارجہ کو بجھوایا گیا ہے۔
'ایکسپریس ٹربیون' میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق عائشہ فاروقی نے اپنے مکتوب میں وزارتِ خارجہ کو مطلع کیا ہے کہ امریکی جیل میں عافیہ صدیقی کو ناروا سلوک کا سامنا ہے اور انہیں مسلسل جنسی طور پر ہراساں کیا جا رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستانی قونصلر سے ملاقات میں عافیہ صدیقی نے اپنی قانونی ٹیم، جیل عملے اور تحقیقاتی افسران پر بھی عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔
وزارتِ خارجہ کی طرف سے تاحال اس رپورٹ کے درست ہونے یا نہ ہونے سے متعلق کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا۔ ’وائس آف امریکہ‘ کے نمائندے نے ترجمان دفترِ خارجہ سے اس معاملے پر بات کرنے کی بارہا کوشش کی لیکن وہ دستیاب نہیں ہو سکے۔
واشنگٹن میں پاکستانی سفاتخانے اور ہیوسٹن میں قونصلیٹ جنرل سے بھی رابطے کی کوششیں کی گئیں لیکن تاحال کوئی جواب موصول نہیں ہو سکا۔
واضح رہے کہ رواں سال 23 مئی کو امریکہ کے شہر ہیوسٹن میں پاکستانی قونصل جنرل عائشہ فاروقی نے ٹیکساس کی 'ایف ایم سی کارسویل' جیل میں قید ڈاکٹر عافیہ سے ملاقات کی تھی۔
لیکن اس ملاقات کے بعد ہیوسٹن میں پاکستانی قونصل خانے سے جاری پریس ریلیز میں ایسی کوئی بات نہیں کہی گئی تھی اور نہ ہی ڈاکٹر عافیہ کو درپیش کسی طرح کی مشکل کا ذکر کیا گیا تھا۔
قونصل جنرل عائشہ فاروقی کی اس ملاقات سے قبل ذرائع ابلاغ میں یہ خبریں سامنے آئی تھیں کہ ڈاکٹر عافیہ کا انتقال ہو گیا ہے۔
لیکن پریس ریلیز میں کہا گیا تھا کہ ’’ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے متعلق افواہیں مکمل طور پر بے بنیاد اور غلط ہیں‘‘۔ بیان میں بتایا گیا تھا کہ ’’پاکستانی قونصل جنرل کی ڈاکٹر عافیہ سے ملاقات دو گھنٹوں تک جاری رہی تھی‘‘۔
پریس ریلیز کے مطابق، گزشتہ 14 ماہ میں عائشہ فاروقی کی ڈاکٹر عافیہ سے یہ چوتھی ملاقات تھی۔
پاکستان کے ایک معروف قانون دان اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر کامران مرتضیٰ نے کہا ہے کہ ایک بیمار خاتون کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کی اس خبر پر انہیں یقین نہیں آ رہا، کیوں کہ، ان کے بقول، امریکہ جیسے معاشرے میں خواتین کو بہت عزت دی جاتی ہے۔
’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کامران مرتضیٰ نے کہا کہ ’’اگر اس حوالے سے ثبوت دستیاب ہیں تو جو لوگ ذمہ دار ہیں اُن کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ "ایک بات یہ ہے کہ اگر اس معاشرے میں ایسا ہوا ہے تو حقائق چھپ نہیں سکتے اور منظر عام پر آ جائیں گے۔"
واضح رہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو 2010ء میں امریکہ کی ایک عدالت نے افغانستان میں امریکی فوجیوں پر حملہ کرنے کے الزام میں 86 سال قید کی سزا سنائی تھی۔
پاکستان میں بعض مذہبی جماعتیں بڑی شدت سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کرتی رہی ہیں اور کسی ںہ کسی حوالے سے اُن کا نام میڈیا میں سامنے آتا رہتا ہے۔
رواں سال کے آغاز پر یہ اطلاعات بھی سامنے آئی تھیں کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو پاکستان میں قید ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی کے بدلے چھوڑنے کے بارے میں امریکہ اور پاکستان میں کوئی ڈیل ہو رہی ہے۔
تاہم، پاکستانی وزارتِ خارجہ نے اس طرح کی کسی ڈیل کی خبروں کی تردید کی تھی۔