پاکستان نے قبائلی خطے شمالی وزیرستان میں تواتر سے ہونے والے امریکی میزائل حملوں پر سخت احتجاج کیا ہے۔
افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے مشتبہ ٹھکانوں پر ایک ہفتے سے کم عرصے میں اب تک ہونے والے چار ڈرون حملوں میں کم از کم 23 افراد مارے جا چکے ہیں۔
وزارتِ خارجہ سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق اسلام آباد میں متعین ایک اعلیٰ امریکی سفارت کار کو جمعرات کے روز دفتر خارجہ طلب کر کے ان ’’غیر قانونی‘‘ حملوں پر پاکستان کی تشویش سے آگاہ کیا گیا۔
’’یہ بات پُر زور طور پر بیان کی گئی کہ (ڈرون) حملے قابلِ قبول نہیں۔‘‘
پاکستانی حکام ڈرون حملوں کو ملک کی خود مختاری اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے ان کی فوری بندش کا مطالبہ کرتے آئے ہیں، اور یہ معاملہ فوج کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام کے حالیہ دورہِ واشنگٹن میں بھی زیرِ بحث آیا۔
تاہم امریکی حکام کا ماننا ہے کہ ڈرون حملے پاکستانی سرزمین پر روپوش طالبان اور القاعدہ کے جنگجوؤں کے خلاف ایک موثر ہتھیار ثابت ہوئے ہیں۔ اسی وجہ سے مبصرین کے خیال میں ڈرون حملوں کی بندش کے امکانات انتہائی محدود ہیں۔
افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے مشتبہ ٹھکانوں پر ایک ہفتے سے کم عرصے میں اب تک ہونے والے چار ڈرون حملوں میں کم از کم 23 افراد مارے جا چکے ہیں۔
وزارتِ خارجہ سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق اسلام آباد میں متعین ایک اعلیٰ امریکی سفارت کار کو جمعرات کے روز دفتر خارجہ طلب کر کے ان ’’غیر قانونی‘‘ حملوں پر پاکستان کی تشویش سے آگاہ کیا گیا۔
’’یہ بات پُر زور طور پر بیان کی گئی کہ (ڈرون) حملے قابلِ قبول نہیں۔‘‘
پاکستانی حکام ڈرون حملوں کو ملک کی خود مختاری اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے ان کی فوری بندش کا مطالبہ کرتے آئے ہیں، اور یہ معاملہ فوج کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام کے حالیہ دورہِ واشنگٹن میں بھی زیرِ بحث آیا۔
تاہم امریکی حکام کا ماننا ہے کہ ڈرون حملے پاکستانی سرزمین پر روپوش طالبان اور القاعدہ کے جنگجوؤں کے خلاف ایک موثر ہتھیار ثابت ہوئے ہیں۔ اسی وجہ سے مبصرین کے خیال میں ڈرون حملوں کی بندش کے امکانات انتہائی محدود ہیں۔