اسلام آباد —
جمعرات کو اسلام آباد میں دفتر خارجہ کے ترجمان معظم احمد خان نے ہفتہ وار نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ امریکی ایلچی مارک گراسمین کا دورہ دونوں ملکوں کے درمیان جاری اعلیٰ سطحی رابطوں اور مذاکرات کا حصہ ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ امریکی نمائندے کے ساتھ ملاقاتوں میں باہمی دلچسپی اور علاقائی امور بشمول افغانستان زیر بحث آئیں گے۔
تاہم ترجمان نے یہ بتانے سے گریز کیا کہ شمالی وزیرستان میں ممکنہ فوجی آپریشن کا معاملہ بھی بات چیت کا حصہ ہوگا یا نہیں۔
معظم احمد خان کا اصرار تھا کہ مارک گراسمین کے ساتھ ملاقاتوں میں کئی امور اور شعبوں پر بات چیت کی جائے گی لیکن وہ ان کی تفصیلات بتانے سے قاصر ہیں۔
دفتر خارجہ کے ترجمان نے اس تاثر کی بھی نفی کی کہ سوات میں ملالہ یوسف زئی پر طالبان کے حملے کو بہانہ بنا کر شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے لیے حکومت پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ایسا سوچنا بد قسمتی ہو گی کیونکہ ملالہ کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا وہ ایک قابل مذمت فعل تھا جس کا کوئی جواز نہیں۔ ترجمان کے بقول اس واقعہ کو جواز بنا کر ذرائع ابلاغ میں جو بھی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں وہ محض تصورات پر مبنی ہیں۔
امریکی عہدے داروں کے بقول مارک گراسمین اسلام آباد میں پاکستانی رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتوں میں واشنگٹن اور نیویارک میں حال ہی میں ہونے والے دو طرفہ مذاکرات میں پیش رفت کا بھی جائزہ لیں گے۔
اسلام اباد میں عہدے داروں کا کہنا ہے کہ افغانستان میں امن و مفاہمت کی کوششیں بھی بات چیت کا ایک مرکزی نکتہ ہوں گی۔
تینوں ملکوں کے عہدے داروں پر مشتمل حال ہی میں تشکیل دیا گیا ایک ورکنگ گروپ افغان امن کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے اس میں طالبان کی شمولیت کا طریقہ کار طے کرنے میں مصروف ہے۔ تاہم اس ضمن میں ابھی تک کسی بڑی پیش رفت کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔
اس کی بڑی وجہ افغانستان اور پاکستان کے تعلقات میں حالیہ تناؤ ہے۔ افغان حکام کا الزام ہے کہ پاکستانی فوج ان کے شہری علاقوں پر بلااشتعال گولہ باری کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔
پاکستان ان الزامات کو رد کرتا ہے اور اس کا موقف ہے کہ فائرنگ کا ہدف سرحد پار سے حملہ آور ہونے والے درانداز ہوتے ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ امریکی نمائندے کے ساتھ ملاقاتوں میں باہمی دلچسپی اور علاقائی امور بشمول افغانستان زیر بحث آئیں گے۔
تاہم ترجمان نے یہ بتانے سے گریز کیا کہ شمالی وزیرستان میں ممکنہ فوجی آپریشن کا معاملہ بھی بات چیت کا حصہ ہوگا یا نہیں۔
معظم احمد خان کا اصرار تھا کہ مارک گراسمین کے ساتھ ملاقاتوں میں کئی امور اور شعبوں پر بات چیت کی جائے گی لیکن وہ ان کی تفصیلات بتانے سے قاصر ہیں۔
دفتر خارجہ کے ترجمان نے اس تاثر کی بھی نفی کی کہ سوات میں ملالہ یوسف زئی پر طالبان کے حملے کو بہانہ بنا کر شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے لیے حکومت پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ایسا سوچنا بد قسمتی ہو گی کیونکہ ملالہ کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا وہ ایک قابل مذمت فعل تھا جس کا کوئی جواز نہیں۔ ترجمان کے بقول اس واقعہ کو جواز بنا کر ذرائع ابلاغ میں جو بھی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں وہ محض تصورات پر مبنی ہیں۔
امریکی عہدے داروں کے بقول مارک گراسمین اسلام آباد میں پاکستانی رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتوں میں واشنگٹن اور نیویارک میں حال ہی میں ہونے والے دو طرفہ مذاکرات میں پیش رفت کا بھی جائزہ لیں گے۔
اسلام اباد میں عہدے داروں کا کہنا ہے کہ افغانستان میں امن و مفاہمت کی کوششیں بھی بات چیت کا ایک مرکزی نکتہ ہوں گی۔
تینوں ملکوں کے عہدے داروں پر مشتمل حال ہی میں تشکیل دیا گیا ایک ورکنگ گروپ افغان امن کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے اس میں طالبان کی شمولیت کا طریقہ کار طے کرنے میں مصروف ہے۔ تاہم اس ضمن میں ابھی تک کسی بڑی پیش رفت کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔
اس کی بڑی وجہ افغانستان اور پاکستان کے تعلقات میں حالیہ تناؤ ہے۔ افغان حکام کا الزام ہے کہ پاکستانی فوج ان کے شہری علاقوں پر بلااشتعال گولہ باری کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔
پاکستان ان الزامات کو رد کرتا ہے اور اس کا موقف ہے کہ فائرنگ کا ہدف سرحد پار سے حملہ آور ہونے والے درانداز ہوتے ہیں۔