اسلام آباد —
امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے پاکستان و افغانستان مارک گراسمین نے جمعہ کو دور روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچنے کے بعد پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت سے ملاقتیں کیں۔
ہفتہ کو صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم راجہ پرویز اشرف سے الگ الگ ملاقاتوں میں دوطرفہ اہم امور پر بات چیت کی گئی۔
ایوان صدر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر زرداری نے امن و استحکام کے لیے دونوں ملکوں کی مشترکہ کوششوں کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ باہمی اعتماد کے ذریعے ہی دوطرفہ مفادات کے حصول میں پیش رفت کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔
بیان کے مطابق صدر زرداری نے افغانستان میں امن و سلامتی کے لیے پاکستان کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک بین الاقوامی برادری کے ساتھ مل کر افغانستان میں امن و مصالحت کی ایسی کوششوں کی حمایت جاری رکھے گا جس میں خود افغان شامل ہوں۔
مزید برآں پاکستانی صدر نے کہا کہ القاعدہ اور دہشت گردی کو شکست دینا ایک مشترکہ مقصد ہے جو سرحد کے دونوں جانب باہمی تعاون اور کوششوں سے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔
وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے ساتھ مارک گراسمین کی ملاقات کے بعد جاری ہونے والے سرکاری بیان کے مطابق پاکستانی وزیراعظم نے دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی اور توانائی کے شعبے میں دوطرفہ تعلقات کو انتہائی اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کے ملک کی ترقی میں امریکہ ایک بڑا شراکت دار ہے۔
بیان کے مطابق امریکہ کے نمائندہ خصوصی نے کہا کہ توانائی کے شعبے میں دوطرفہ تعاون جاری ہے اور دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لیے امریکہ 20 کروڑ ڈالر دینے کا اعلان کرچکا ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاک امریکہ مشترکہ سرمایہ کاری کے معاہدے کو حتمی شکل دینے پر بھی کام جاری ہے تاکہ اقتصادی روابط میں مزید مضبوطی آئے۔
ہفتہ کو دونوں ملکوں کے وفود کے درمیان دفتر خارجہ میں بات چیت کا ایک اہم دور بھی ہوا جس میں پاک امریکہ طویل المدت باہمی شراکت داری کے اسٹریٹیجک مذاکرات کی بحالی سمیت مختلف امور پر تفصیلی بات چیت کی گئی۔
امریکی سفارتخانے سے جاری ہونے والے ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت سے ملاقاتوں میں مارک گراسمین نے کہا کہ امریکہ انسداد دہشت گردی کے مشترکہ مقاصد پر کام جاری رکھنے، پاکستان کے لیے بین الاقوامی منڈی تک رسائی اور اقتصادی مواقع کی فراہمی، جمہوریت اور سول سوسائٹی کی اعانت کرنے کے عزم پر کاربند ہے۔
ملاقاتوں میں سفیر گروسمین نے ڈاکٹر شکیل آفریدی کا معاملہ بھی اٹھایا۔ مزید برآں ان کا کہنا تھا کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ امریکہ اور پاکستان مل جل کر کام کریں تاکہ پاکستان، افغانستان اور خطے کو زیادہ محفوظ، مستحکم اور خوشحال بنایا جاسکے۔
بیان کے مطابق امریکی ایلچی نے زور دے کر کہا کہ ان مقاصد کا حصول آسان نہیں اور ان کے لیے سوچ، تعاون اور سخت محنت درکار ہے۔ امریکہ نے پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات، روابط جاری رکھنے اور کامیابیوں کے سلسلہ کو آگے بڑھانے کا عہد کررکھا ہے۔
جمعہ کو مارک گراسمین نے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور وزیرخارجہ حناربانی کھر سے بھی ملاقاتیں کیں۔
دفتر خارجہ کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ملاقات میں وزیر خارجہ نے اس امید کا اظہار کیا کہ ان کے آئندہ دورہ امریکہ کے موقع پر دونوں ملکوں کو باہمی احترام اور مفاد پر مبنی دو طرفہ اہم معاملات پر بات چیت کا موقع ملے گا۔
پاکستانی وزیرخارجہ 18ستمبر سے امریکہ کا سرکاری دورہ کررہی ہیں۔
تقریباً اڑھائی ماہ قبل پاکستان کے راستے نیٹو افواج کے لیے سپلائی لائنز کی بحالی کے بعد مارک گراسمین کا یہ پہلا دورہ تھا۔
ہفتہ کو صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم راجہ پرویز اشرف سے الگ الگ ملاقاتوں میں دوطرفہ اہم امور پر بات چیت کی گئی۔
ایوان صدر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر زرداری نے امن و استحکام کے لیے دونوں ملکوں کی مشترکہ کوششوں کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ باہمی اعتماد کے ذریعے ہی دوطرفہ مفادات کے حصول میں پیش رفت کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔
بیان کے مطابق صدر زرداری نے افغانستان میں امن و سلامتی کے لیے پاکستان کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک بین الاقوامی برادری کے ساتھ مل کر افغانستان میں امن و مصالحت کی ایسی کوششوں کی حمایت جاری رکھے گا جس میں خود افغان شامل ہوں۔
مزید برآں پاکستانی صدر نے کہا کہ القاعدہ اور دہشت گردی کو شکست دینا ایک مشترکہ مقصد ہے جو سرحد کے دونوں جانب باہمی تعاون اور کوششوں سے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔
وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے ساتھ مارک گراسمین کی ملاقات کے بعد جاری ہونے والے سرکاری بیان کے مطابق پاکستانی وزیراعظم نے دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی اور توانائی کے شعبے میں دوطرفہ تعلقات کو انتہائی اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کے ملک کی ترقی میں امریکہ ایک بڑا شراکت دار ہے۔
بیان کے مطابق امریکہ کے نمائندہ خصوصی نے کہا کہ توانائی کے شعبے میں دوطرفہ تعاون جاری ہے اور دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لیے امریکہ 20 کروڑ ڈالر دینے کا اعلان کرچکا ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاک امریکہ مشترکہ سرمایہ کاری کے معاہدے کو حتمی شکل دینے پر بھی کام جاری ہے تاکہ اقتصادی روابط میں مزید مضبوطی آئے۔
ہفتہ کو دونوں ملکوں کے وفود کے درمیان دفتر خارجہ میں بات چیت کا ایک اہم دور بھی ہوا جس میں پاک امریکہ طویل المدت باہمی شراکت داری کے اسٹریٹیجک مذاکرات کی بحالی سمیت مختلف امور پر تفصیلی بات چیت کی گئی۔
امریکی سفارتخانے سے جاری ہونے والے ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت سے ملاقاتوں میں مارک گراسمین نے کہا کہ امریکہ انسداد دہشت گردی کے مشترکہ مقاصد پر کام جاری رکھنے، پاکستان کے لیے بین الاقوامی منڈی تک رسائی اور اقتصادی مواقع کی فراہمی، جمہوریت اور سول سوسائٹی کی اعانت کرنے کے عزم پر کاربند ہے۔
ملاقاتوں میں سفیر گروسمین نے ڈاکٹر شکیل آفریدی کا معاملہ بھی اٹھایا۔ مزید برآں ان کا کہنا تھا کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ امریکہ اور پاکستان مل جل کر کام کریں تاکہ پاکستان، افغانستان اور خطے کو زیادہ محفوظ، مستحکم اور خوشحال بنایا جاسکے۔
بیان کے مطابق امریکی ایلچی نے زور دے کر کہا کہ ان مقاصد کا حصول آسان نہیں اور ان کے لیے سوچ، تعاون اور سخت محنت درکار ہے۔ امریکہ نے پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات، روابط جاری رکھنے اور کامیابیوں کے سلسلہ کو آگے بڑھانے کا عہد کررکھا ہے۔
جمعہ کو مارک گراسمین نے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور وزیرخارجہ حناربانی کھر سے بھی ملاقاتیں کیں۔
دفتر خارجہ کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ملاقات میں وزیر خارجہ نے اس امید کا اظہار کیا کہ ان کے آئندہ دورہ امریکہ کے موقع پر دونوں ملکوں کو باہمی احترام اور مفاد پر مبنی دو طرفہ اہم معاملات پر بات چیت کا موقع ملے گا۔
پاکستانی وزیرخارجہ 18ستمبر سے امریکہ کا سرکاری دورہ کررہی ہیں۔
تقریباً اڑھائی ماہ قبل پاکستان کے راستے نیٹو افواج کے لیے سپلائی لائنز کی بحالی کے بعد مارک گراسمین کا یہ پہلا دورہ تھا۔