اسلام آباد —
امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری کی پاکستانی سول و عسکری قیادت سے جمعرات کو ہونے والی ملاقاتوں کے بعد اہم ترین پیش رفت پاک امریکہ اسٹریٹیجک مذاکرات کی بحالی کا اعلان تھا۔
مبصرین اور تجزیہ کاروں نے اس پیش رفت کو عموماً دباؤ کا شکار رہنے والے دوطرفہ تعلقات میں بہتری کی کوششوں کے سلسلے میں اہم سنگِ میل قرار دیا ہے۔
سیاسی اور بین الاقوامی اُمور کے ماہر پروفیسر حسن عکسری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اقتصادی مشکلات سے دوچار پاکستان کے لیے بیرونی تعاون پر مذاکرات کی بحالی ’’ایک اچھی خبر‘‘ ہے۔
’’امریکہ کی طرف سے مختلف شعبوں میں اب اقتصادی اور تکنیکی تعاون کا امکان پہلے سے بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔‘‘
جان کیری کے دورے میں طالبان اور افغانستان کے درمیان ممکنہ براہ راست مذاکرات کا موضوع بھی زیر بحث آیا۔
پاکستانی وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ اُمور سرتاج عزیز نے امریکی وزیرِ خارجہ کے ساتھ مشترکہ نیوز کانفرنس میں کہا کہ پاکستان افغانستان میں مصالحتی عمل کی حمایت جاری رکھے گا۔
طالبان سے مذاکرات کے بارے میں پاکستان کے ممکنہ کردار پر وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے حسن عسکری نے کہا کہ اگر طالبان صدر حامد کرزئی کی تشکیل کردہ اعلیٰ امن کونسل سے براہ راست بات چیت پر آمادہ ہو جاتے ہیں تو یہ امریکہ اور افغانستان دونوں کے لیے انتہائی خوش آئند پیش رفت ہو گی۔
’’اگر اس سلسلے میں پاکستان افغان طالبان کی حوصلہ افزائی کر سکتا ہے تو یہ اچھا کردار ہوگا ... لیکن پاکستان صرف طالبان کی حوصلہ افزائی کر سکتا ہے کیوں کہ وہ اُنھیں کسی معاہدے پر مجبور نہیں کر سکتا۔‘‘
دفاعی اُمور کی ماہر ماریہ سلطان کہتی ہیں کہ آنے والے برسوں میں پاک امریکہ تعلقات کے تناظر میں جان کیری کے حالیہ دورے میں طے پانے والے معاملات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔
اُن کے بقول آنے والے دنوں میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان ’’حقیقت پسندانہ تعلقات‘‘ دیکھنے میں آئیں گے۔
’’ 14-2013ء میں سب سے اہم معاملہ افغان امن عمل ہوگا، اس کے بعد پاکستان کی حکومت کے لیے اندرونی طور پر توانائی اور ترقیاتی عمل ترجیحات ہوں گے، جب کہ 2014ء کے اختتام پر (افغانستان سے امریکی اور نیٹو لڑاکا افواج کے انخلا کے تناظر میں) سامنے آنے والی صورتحال اہم ہوگی۔‘‘
پاکستان میں نئی حکومت کے قیام کے بعد اپنے پہلے دورے میں امریکی وزیرِ خارجہ دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین سے بھی ملاقاتوں کریں گے۔
جمعرات کو جان کیری نے صدر براک اوباما کی طرف سے وزیر اعظم نواز شریف کو دورہ امریکہ کی دعوت بھی دی۔
مبصرین اور تجزیہ کاروں نے اس پیش رفت کو عموماً دباؤ کا شکار رہنے والے دوطرفہ تعلقات میں بہتری کی کوششوں کے سلسلے میں اہم سنگِ میل قرار دیا ہے۔
سیاسی اور بین الاقوامی اُمور کے ماہر پروفیسر حسن عکسری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اقتصادی مشکلات سے دوچار پاکستان کے لیے بیرونی تعاون پر مذاکرات کی بحالی ’’ایک اچھی خبر‘‘ ہے۔
’’امریکہ کی طرف سے مختلف شعبوں میں اب اقتصادی اور تکنیکی تعاون کا امکان پہلے سے بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔‘‘
جان کیری کے دورے میں طالبان اور افغانستان کے درمیان ممکنہ براہ راست مذاکرات کا موضوع بھی زیر بحث آیا۔
پاکستانی وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ اُمور سرتاج عزیز نے امریکی وزیرِ خارجہ کے ساتھ مشترکہ نیوز کانفرنس میں کہا کہ پاکستان افغانستان میں مصالحتی عمل کی حمایت جاری رکھے گا۔
طالبان سے مذاکرات کے بارے میں پاکستان کے ممکنہ کردار پر وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے حسن عسکری نے کہا کہ اگر طالبان صدر حامد کرزئی کی تشکیل کردہ اعلیٰ امن کونسل سے براہ راست بات چیت پر آمادہ ہو جاتے ہیں تو یہ امریکہ اور افغانستان دونوں کے لیے انتہائی خوش آئند پیش رفت ہو گی۔
’’اگر اس سلسلے میں پاکستان افغان طالبان کی حوصلہ افزائی کر سکتا ہے تو یہ اچھا کردار ہوگا ... لیکن پاکستان صرف طالبان کی حوصلہ افزائی کر سکتا ہے کیوں کہ وہ اُنھیں کسی معاہدے پر مجبور نہیں کر سکتا۔‘‘
دفاعی اُمور کی ماہر ماریہ سلطان کہتی ہیں کہ آنے والے برسوں میں پاک امریکہ تعلقات کے تناظر میں جان کیری کے حالیہ دورے میں طے پانے والے معاملات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔
اُن کے بقول آنے والے دنوں میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان ’’حقیقت پسندانہ تعلقات‘‘ دیکھنے میں آئیں گے۔
’’ 14-2013ء میں سب سے اہم معاملہ افغان امن عمل ہوگا، اس کے بعد پاکستان کی حکومت کے لیے اندرونی طور پر توانائی اور ترقیاتی عمل ترجیحات ہوں گے، جب کہ 2014ء کے اختتام پر (افغانستان سے امریکی اور نیٹو لڑاکا افواج کے انخلا کے تناظر میں) سامنے آنے والی صورتحال اہم ہوگی۔‘‘
پاکستان میں نئی حکومت کے قیام کے بعد اپنے پہلے دورے میں امریکی وزیرِ خارجہ دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین سے بھی ملاقاتوں کریں گے۔
جمعرات کو جان کیری نے صدر براک اوباما کی طرف سے وزیر اعظم نواز شریف کو دورہ امریکہ کی دعوت بھی دی۔