امریکہ کی طرف سے پاکستان کو فراہم کی جانے والی عسکری امداد روکنے کے اعلان پر اسلام آباد کی طرف سے محتاط ردعمل سامنے آیا ہے۔
وزارت خارجہ سے جمعے کو جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ پاکستان سیکیورٹی تعاون کے معاملے پر امریکی انتظامیہ کے ساتھ رابطے میں ہے اور اس بارے میں اسے مزید تفصیلات کا انتظار ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ مشترکہ مقاصد کے حوالے سے امریکی فیصلے کے اثرات بھی آنے والے وقت میں مزید واضح ہوں گے۔بیان میں کہا گیا کہ افغانستان میں دہشت گرد گروپ داعش کے سامنے آنے بعد بین الاقوامی تعاون کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کی طرف سے ایک بار پھر کہا گیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ زیادہ تر ملکی وسائل سے لڑی گئی اور اس میں پاکستان کے کردار کو سراہنا چاہیئے کیوں کہ وزارت خارجہ کے مطابق اس جنگ میں گزشتہ 15 سالوں میں پاکستانی وسائل پر 120 ارب ڈالر کا بوجھ بڑھا۔
بیان میں کہا گیا کہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعاون نہ صرف براہ راست امریکہ کی سلامتی بلکہ بین الاقوامی برداری کے مفاد میں بھی ہے۔
پاکستانی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاعی پیداوار کے چیئرمین سینیٹر عبدالقیوم نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں امریکہ کی طرف سے عسکری امداد روکنے کے فیصلے کو بدقسمتی قرار دیا۔
’’لیکن امریکہ نے یہ کہا ہے کہ جب تک پاکستان تعاون نہیں کرتا تو یہ پابندیاں ہیں، ہم ابھی ان کو قائل کرنا چاہتے ہیں ہم تو اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں کہ ہم تعاون کر رہے ہیں آپ آئیں ہمیں (دہشت گردوں کی) پناہ گاہیں بتائیں، (ہم کارروائی کریں گے۔۔۔ یقیناً ہمارے مفاد میں ہے کہ ہم تعاون کریں۔‘‘
تاہم اُنھوں نے کہا دفاعی پیدوار کے حوالے سے پاکستان اپنی ضروریات کا 90 فیصد اپنے ملک میں بنا رہا جب کہ سینیٹر قیوم کے بقول پاکستان دیگر ممالک چین اور روس سے اس سلسلے میں رابطوں میں ہے۔
رواں ہفتے ہی امریکہ کی طرف سے یہ اعلان بھی سامنے آیا تھا کہ پاکستان کو دفاعی سازو سامان خریدنے کے لیے دی جانے والی 25 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کی امداد روکی جا رہی ہے۔
امریکی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے اور اس کا الزام ہے کہ اب بھی اس ملک میں عسکریت پسندوں کی پناہ گاہیں ہیں۔
تاہم پاکستان ملک میں دہشت گردوں کی پناہ کی موجودگی کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے یہ کہتا آیا ہے کہ تمام عسکریت پسندوں بشمول حقانی نیٹ ورک کے خلاف بلاتفریق کارروائی کی گئی ہے۔
پاکستانی عہدیدار یہ کہہ چکے ہیں کہ دہشت گردی کے خاتمے، خطے اور عالمی امن کی کوششوں کے لیے امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعاون کی ضرورت ہے اور اُن کے بقول الزام تراشی سے انسداد دہشت گردی کی کوششیں متاثر ہو سکتی ہیں۔