پاکستان میں قومی شناختی کارڈز کی تصدیق کا عمل جاری ہے اور وزارت داخلہ کے حکام کے مطابق اب تک نو کروڑ 50 لاکھ سے زائد ’کمپیوٹرائزڈ‘ شناختی کارڈز کی از سر نو تصدیق ہو چکی ہے۔
رواں سال جولائی میں شناخی کارڈز کی دوبارہ تصدیق کے اس عمل کا آغاز کیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ رواں سال مئی میں بلوچستان میں افغان طالبان کے امیر ملا اختر مںصور کی ایک امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد یہ انکشاف ہوا تھا کہ انھوں نے ولی محمد کے نام سے پاکستان کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ حاصل کر رکھا تھا۔
اس انکشاف کے بعد ایک مرتبہ پھر کوائف کا اندارج کرنے والے پاکستان کے قومی ادارے ’نادرا‘ کی اہلیت اور جعل سازی سے شناختی کارڈ بنوانے کے عمل کے بارے میں سوالات اُٹھائے جانے لگے۔
جس پر وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار نے تمام شناختی کارڈز کی دوبارہ تصدیق کرنے کا اعلان کیا تھا، اس عمل پر بعض حلقوں کی طرف سے تحفظات کا اظہار بھی کیا گیا تھا کہ جانچ کے اس عمل میں عام شہریوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
حکومت کی طرف سے اس عمل کو مکمل کرنے کے لیے ایک ہیلپ لائن بھی قائم کی گئی تھی جس پر لوگ کسی بھی مشتبہ شناختی کارڈ سے متعلق اطلاع دے سکتے ہیں اور وقف شدہ اس ہیلپ لائن پر روزانہ دس ہزار ٹیلی فون کالز اور ڈیڑھ لاکھ ایس ایم ایس موصول کیے جا سکتے ہیں۔
سابق وفاقی سیکرٹری داخلہ تسنیم نورانی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ تصدیق کا عمل تو خوش آئند ہے لیکن حکومت کو یہ وضاحت بھی کرنی چاہیئے کہ یہ عمل کیسے مکمل کیا گیا۔
’’صرف یہ انفارمیشن کہ ساڑھے نو کروڑ (شناختی کارڈوں کی تصدیق ہو چکی ہے) کافی نہیں ہے، میں سمجھتا ہوں کہ یہ وضاحت آنی چاہیئے کہ کس طریقے سے تصدیق ہوئی اور کتنے فیصد لوگ غلط پائے گئے۔‘‘
پاکستان میں قومی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کا حصول ایک مشکل اور صبر آزما کام رہا ہے لیکن حالیہ برسوں میں کوائف کے اندراج کے قومی ادارے نے اس ضمن میں خاطر خواہ اقدام کر کے لوگوں کو سہولت فراہم کی ہے۔
تاہم ایسے واقعات بھی سامنے آتے رہے ہیں کہ جن میں مبینہ طور پر رشوت دے کر لوگ شناختی دستاویزات حاصل یا ان میں ردوبدل کروا لیتے ہیں۔