پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ کے اراکین نے حکومت کی یقین دہانیوں کے باوجود جنوب مغربی صوبے بلوچستان میں تشدد کے واقعات میں اضافے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
جمعہ کو سینیٹ کے اجلاس میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے اراکین نے ایوان کی توجہ حالیہ مہینوں میں صوبے میں تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات،خصوصاً گولیوں سے چھلنی لاشوں کی برآمدگی، کی جانب مبذول کراتے ہوئے کہا کہ بار بار دعوں کے باوجود صوبائی اور وفاقی حکومتیں صوبے میں امن و امان کی صورت حال کو بہتر کرنے کے لیے کوئی جامع لائحہ عمل وضع نہیں کر سکی ہیں۔
اخبارات میں تواتر سے چھپنے والی خبروں کا حوالہ دیتے ہوئے بلوچ سینیٹر حاصل بزنجو نے کہا کہ پچھلے چار ماہ کے دوران بلوچستان کے مختلف علاقوں میں لگ بھگ دو سو ایسے نوجوانوں کی لاشیں ملی ہیں جنھیں سر میں گولی مار کر ہلاک کیا گیا تھا۔
”نا وزیر اعظم کو اس کی پرواہ ہے، نا حکومت کو اس کی پرواہ ہے، نا (پارلیمان کے) دونوں ایوانوں کو اس کی پرواہ ہے۔ اگر یہ رویہ (اپنایا جاتا ہے اور) وزیر اعظم اس پر خاموش ہوتے ہیں، یہ ایوان اس پر خاموش ہوتا ہے تو وہاں جو صورت حال ہے اُس سے گلہ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔“
بلوچ قوم پرست جماعتوں کا دعوی ہے کہ گولیاں مار کر ہلاک کیے جانے والے بیشتر نوجوان اُن کے کارکن تھے اور ان ہلاکتوں میں مبینہ طور پر سکیورٹی ادارے ملوث ہیں، تاہم حکومت ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔
ایوان میں موجود وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اس تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اُن کی حکومت بلوچستان کے عوام میں احساس محرومی ختم کرنے کے اپنے عزم پر قائم ہے اور وہ مسائل کے حل کے لیے بلوچ رہنماؤں سے مذاکرات پر بھی تیار ہیں۔
”یہ ہم نہیں کہ رہے کہ ہم نے کوئی کام کر دیا ہے، مگر ارادہ آپ پر ظاہر کیا کہ ہم نیک نیتی سے چاہتے ہیں کہ 63 ، 64 سالوں سے (صوبے میں) جو پسماندگی ہے اور لوگوں میں احساس محرومی ہے اُس کو دور ہونا چاہیئے۔“
اُنھوں نے بین الصوبائی رابطوں کے وفاقی وزیر رضا ربانی کو ہدایت کی کہ وہ حکومت کی طرف سے بلوچستان کے لیے اعلان کردہ اقدامات کے موثر نفاذ کو یقینی بنائیں۔
وزیراعظم گیلانی نے کہا کہ بلوچستان میں پسماندگی کے خاتمے کے لیے قواعدوضوابط میں نرمی کر کے پانچ ہزار بلوچ نوجوانوں کو نوکریاں دی گئی ہیں اور اتنی ہی تعداد میں مزید افراد کو جلد ملازمتیں فراہم کی جائیں گی۔ اُنھوں نے بلوچستان کے تمام اضلاع کے ہونہار طالب علموں کے لیے وظائف کا اعلان بھی کیا اور کہا کہ بلوچستان کے 30 اضلاع میں سے ہر ایک ضلع سے پانچ پانچ ہونہار بچوں کوسرکاری خرچ پر ملک کے بہترین تعلیمی اداروں میں تعلیم دلوائی جائے۔
وزیر اعظم نے بلوچستان میں کمپیوٹر کی تعلیم کے لیے خصوصی کیمپس تعمیر کروانے کی بھی ہدایت کی۔
قدرتی وسائل اور معدنیات سے مالا مال صوبے بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں کا الزام ہے کہ اُن کے صوبے کی محرومیوں کو دور کرنے کے لیے اقدامات نہیں کیے گئے ہیں۔ تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ وہ تمام تر دستیاب وسائل بلوچ عوام کی بہتری پر خرچ کر رہی ہے اور بلوچ نوجوانوں کو ملک کی مسلح افواج میں بھی بھرتی کیا جارہا ہے۔
حال ہی میں فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے بھی بلوچستان کے دوروں کے دوران تعلیمی اداروں کے قیام کا اعلان کیا اور نوجوانوں سے کہا کہ وہ فوج میں شمولیت اختیارکریں۔