حقوق انسانی کی تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے کراچی میں خونریز تشدد کی حالیہ لہر کا ذمہ دار بڑی سیاسی جماعتوں کو ٹھہرایا ہے۔
ایچ آر سی پی کی جانب سے یہ دعویٰ بدامنی کی صورت حال کے محرکات اور حقائق جاننے کے لیے ملک کے سب سے بڑے شہر اور تجارتی مرکز بھیجی گئی سینیئر اراکین کی ٹیم کے مشاہدات کی روشنی میں کیا ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے پیر کو جاری کی گئی اپنی عبوری رپورٹ میں کہا ہے کہ ’’عدم تحفظ کی کثیر الجہتی لہر نے کراچی کو متضاد اور برعکس سیاسی، لسانی فرقہ وارانہ رجحانات کے حامل گروہوں میں تقسیم کر دیا ہے، جس نے اس شہر کی رواداری اور بھائی چارے کی شاندار روایات کو بری طرح پامال کرکے رکھ دیا ہے۔‘‘
رپورٹ کے مطابق قبضہ مافیا اور دیگر جرائم پیشہ گروہوں نے کراچی میں بدامنی کی صورت حال کا ناجائز فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی لیکن وہ بظاہر قتل و غارت کے اس بھیانک کھیل کے مرکزی کردار نہیں۔ ”یہ شرف زیادہ طاقتور سیاسی گرہوں کو حاصل جن کے ہاتھوں میں امن کی کنجی ہے۔“
وائس آف امریکہ نے جب صوبہ سندھ کے وزیر داخلہ منظور حسین وسان سے ایچ آر سی پی کی رپورٹ پر اُن کا ردعمل معلوم کیا تو ان کا مختصر جواب تھا کہ ”میرے خیال میں اُن (ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان) کا اپنا موقف ہے، میں تو نہیں کہوں گا کہ سب جماعتیں ملوث ہیں۔“
پولیس اور انتظامیہ کے حکام کا کہنا ہے کہ لگ بھگ ایک کروڑ 80 لاکھ کی آبادی والے شہر میں صرف جولائی کے مہینے کے دوران تشدد کے واقعات میں 200 سے زائد افراد ہلاک ہوئے، جن میں سیاسی کارکن بھی شامل تھے۔
ایچ آر سی پی کے مطابق وہ یہ امر واضح کرنے پر مجبور ہوئی ہے کہ سیاسی عہدے داروں کی بے حسی اور غیر سرکاری تنظیموں سے عدم تعاون کراچی میں انتظامیہ کی ناکامی کی بڑی وجوہات میں سے ایک ہے۔ کمیشن نے اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا ہے کہ صوبہ سندھ کے وزیر اعلیٰ اس کی ٹیم سے ملاقات کے لیے وقت نہیں نکال پائے۔
ادھر رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تقریباً تمام سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کی حیثیت اور مفادات کا احترام کرنے کی ضرورت، اور اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے تشدد کا راستہ اپنانے سے اجتناب برتنے پر متفق تھیں۔ جب کہ ایچ آر سی پی کے اراکین سے رابطے میں آنے والے تمام افراد نے کراچی کو اسلحے سے پاک کرنے کا مطالبہ کیا۔
کراچی کی بڑی سیاسی جماعتوں خصوصاً حکمران پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما ایک دوسرے پر شہر میں بدامنی پھیلانے کے الزامات لگاتے آئے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق پیر کو ایم کیو ایم کے سینیئر رہنما اور رکن قومی اسمبلی حیدر عباس رضوی نے ایک مرتبہ پھر الزام لگایا کہ صوبہ سندھ کے سینیئر وزیر اور سابق وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا بھی کراچی میں جاری بدامنی میں ملوث ہیں۔
اس بیان پر اپنے ردعمل میں پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل میمن نے کہا کہ حیدر عباس رضوی کا بیان ’’غیر ذمہ دارانہ‘‘ ہے۔
ایچ آر سی پی کی رپورٹ کے مطابق قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف جو شکایات موصول ہوئیں ان میں اہلکاروں کی جانب سے فرائض سے غفلت، چوکیاں چھوڑ کر بھاگ جانا اور شہریوں کی طرف سے مدد کے مطالبے پر تاخیر سے عمل کرنا شامل تھیں۔
تنظیم کی چیئرپرسن زہرہ یوسف کی سربراہی میں کراچی کا تین روزہ دورہ کرنے والی ٹیم نے سیاسی جماعتوں، پولیس، شعبہ صحت، کاروباری طبقے، اساتذہ، دانش وروں، وکلا اور صحافیوں کے نمائندوں سے شہر کی صورت حال پر تفصیل سے تبادلہ خیال کیا۔ ایچ آر سی پی کے اراکین نے تشدد کی کارروائیوں کا نشانہ بننے والے علاقوں بشمول ’کٹی پہاڑی‘ کا دورہ کرنے کے علاوہ متاثرہ خاندانوں سے ملاقاتیں کیں اور ایک ’کھلی کچہری‘ کا اہتمام بھی کیا۔
دوسری طرف ایچ آر سی پی کے اراکین نے جن افراد سے رابطہ کیا ان میں سے بعض نے جمہوری نظام سے ’’مکمل مایوسی‘‘ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ مسائل کے حل کے لیے ماورائے آئین قوتوں کے منتظر ہیں۔
لیکن حقوق انسانی کی تنظیم کا کہنا ہے کہ وہ اس اقلیت کی ذاتی پسند کی تائید نہیں کرتی کیوں کہ اس کے بقول ’’یہ ایک مصیبت سے نکل کر دوسری بڑی مصیبت میں پھنسنے کے مترادف ہے۔‘‘