پاکستان کو درپیش چیلنجز میں ہر آنے والے دن کے ساتھ اضافہ ہورہاہے ۔ انتہا پسندی، امن کی خراب صورتحال، وسائل کی کمی اور بے روزگاری جیسے مسائل اور ان کے حل میں ناکامی نے اب ایک مسلسل احتجاج کی صورت اختیار کر لی ہے۔ ماہرین اب اس پہلوپر سوچ رہے ہیں کہ موجودہ صورت حال پاکستان کے مستقبل پر کیا اثرات مرتب کرسکتی ہے اور پاکستان کے اندر موجود قوتیں ملک کو اس مشکل سے نکالنے میں کیا کردار ادا کرسکتی ہیں۔
معاشی عدم استحکام کے خلاف نیویارک سے شروع ہونا والا عوامی احتجاج اب دنیا بھر میں پھیل چکا ہے ۔ اسی کی ایک جھلک پاکستان کے دارلحکومت اسلام آباد میں بھی دیکھی گئی ، جہاں سول سوسائٹی اور مزدوروں کی نمائندہ تنظیموں نے عالمی بینک کی عمارت کے سامنے مظاہرہ کیا۔
گیلب کے ایک تازہ ترین سروے کے مطابق 53 فیصد پاکستانیوں نے لوڈشیڈنگ اور ملک کے دیگر مسائل کے خلاف سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرنے کی حمایت کی ہے۔
ایسے میں اندرون ملک اور بیرونی سطح پر یہ بحث بھی تیز ہو رہی ہے کہ پاکستان کے ان مسائل کے پس منظر میں ملک کے مستقبل کی سمت کون متعین کرے گا ۔ ایک عام خیال یہ ہے کہ پاکستان کے مستقبل کا تعین کرنے میں ملک کی مذہبی جماعتیں، اعتدال پسند عناصر اور فوج اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔
تجزیہ کار حسن عباس کا تعلق ایک امریکی تھینک ٹینک سے ہے ۔ وہ پاکستان کی بدلتی ہوئی سیاست اور معاشرت کے کئی پہلووں پر کئی کتابیں لکھ چکے ہیں۔ دارالحکومت واشنگٹن کے قریب ریاست ورجینیا کی جارج میسن یونیورسٹی میں پاکستانی اور امریکی طلبا سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے بارے میں پائے جانے والے عام تاثر کے برعکس مستقبل میں تبدیلی کے لئے فوج کا کردار زیادہ اہم نہیں ہوگا ۔
ان کا کہناتھا کہ فوج طاقتور ہے ، اس کے پاس وسائل ہیں۔ وہ چار بار ملک پر حکومت کرچکی ہے ۔ لیکن انہوں نے اقتدار کے بعد ہمیشہ ملک کو پہلے سے خراب حالت میں چھوڑا ہے۔
حسن عباس کا کہنا تھا کہ اس وقت پاکستان کی موجودہ صورت حال میں عام آدمی ہی ایک ایسی واحد قوت ہے جو پاکستان کے حالات کو بدل سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پہلے تو یہ یقین رکھنا ہوگا کہ ہر فرد اہمیت رکھتا ہے اور وہ اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرکے قوم کا مقدر بدل سکتا ہے کیونکہ اس کے ہاتھ میں ووٹ کی طاقت ہے۔ اور سب سے پہلی بات یہ ہے کہ وہ اگلے انتخابات میں پڑھے لکھے اور مخلص افراد کو ووٹ دیں ۔
حسن عباس کا کہنا تھا پاکستان کے حالات کو بدلنے کی ایک ہی صورت ہے کہ لوگ ذاتی مفادات ، ذات برادری اور ذاتی تعلقات سے بالاتر ہو کر صرف اہل لوگوں کوسیاسی قیادت سونپیں ،جن کی معاشرے میں مثبت تبدیلی لانے کے لئے کچھ نہ کچھ دیانتداری ثابت ہو چکی ہو۔
حسن عباس نے وکلا تحریک کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر عوام یہ فیصلہ کر لیں انھیں انصاف چاہیے اور وہ تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو انھیں روکنا آسان نہیں ہوتا ۔
طالب علموں کی طرف سےپوچھے گئے ایک سوال پر کہ پاکستانی حکومتیں غیر ملکی امداد کی وجہ سے کس حد تک آزادانہ فیصلے کر سکتی ہیں ، حسن عباس کا کہنا تھا کہ پاکستان میں امریکہ کا ایک کردار ہے اور رہے گا۔ لیکن اب امریکہ کے لیے یہ آسان نہیں رہا کہ وہ کسی بڑے پالیسی معاملے پر پاکستان پر دباؤ ڈال سکے ۔
حسن عباس کا کہنا تھا کہ پاکستان کی امید اس کی نوجوان نسل ہے ، لیکن موجودہ صورتحال میں نہ صرف پاکستان کے اندر بلکہ بااہر بسنے والے پاکستانیوں کو بھی اپنے ملک کی بقا اور ترقی کی جنگ لڑنے کے لئے بھرپور اور مکمل کردار ادا کرنا ہوگا اور صرف دوسروں کو مورد الزام ٹہرانا کوئی تعمیری حکمت عملی نہیں ۔