پاکستانی ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک میں اس وقت دستیباب پانی کا صرف بارہ فیصد ذخیرہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے کیونکہ باقی پانی ذخیرہ کرنے کے لئے ڈیم نہیں ہیں۔ اس صورت حال کے تناظر میں ماہرین اس بات پر زور دے رہے ہیں آئندہ سیلاب کی تباہ کاریوں کو کم کرنے اور پانی کی فی کس کم ہوتی دستیابی بڑھانے کے لیے نئے ڈیموں کی تعمیر نا گزیر ہے۔
ماہرین موسمیات پہلے ہی متنبہ کر چکے ہیں کہ پاکستان دنیا کے ان ملکوں میں سے ہے جو اپنے جغرافیائی محل و قوع کی وجہ سے موسمی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہو سکتا ہے اور ان اثرات میں شدید سیلاب یا خشک سالی نمایاں ہیں۔ گذشتہ سال جولائی میں ملک کی تاریخ کے بدترین سیلاب نے تقریبا دو کروڑ افراد کو متاثر کیا تھا۔
واپڈا کے سابق چیئرمین شمش الملک نے وائس آف امریکہ سے انٹرویومیں کہا کہ پاکستان میں دستیاب پانی کو ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کم از کم چالیس فیصد ہونی چاہیئے۔’’ڈیم ہوں گے تو پانی ذخیرہ ہو جائے گا، سیلاب کم آئیں گے تباہی کم ہو گی۔اسی طرح اگر خشک سالی ہو گی تو یہی پانی استعمال میں لایا جا سکے گا‘‘۔
پاکستان کے منصوبہ بندی کمیشن کے ایک اعلی عہدیدارکا کہنا ہے کہ حکومت پانی کی گھٹتی ہوئی فی کس دستیابی کے سنگین مسئلے اور سیلاب کے خطرات سے پوری طرح آگاہ ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے تین سالہ منصوبے پر کام کیا جا رہا ہے جس میں چین کے تعاون سے32 ڈیموں کی تعمیر شامل ہے۔
ایک انٹرویو میں ادارے کے چیف واٹر نصیر گیلانی نے بتایا کہ ان ڈیموں سے بڑے پیمانے پر بجلی کی پیدوار تو ممکن نہیں ہوگی تاہم ان میں 34 لاکھ ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہوگی۔ انہوں نے بتایا کہ دیہی آبادی کے شہروں میں آکر آباد ہونے کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا جس سے پانی کی کھپت میں بھی اضافہ اور دستیابی میں کمی ہو رہی ہے۔
پاکستان میں پانی کی کمی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 1947میں قیام پاکستان کے وقت فی کس پانی کی دستیابی پانچ ہزار چھ سو کیوبک میٹر تھی جو اس وقت کم ہوکر ایک ہزار کیوبک میٹر فی کس سے بھی کم رہ گئی ہے۔
نصیر گیلانی نے بتایا کہ مذکورہ تین سالہ منصوبے کے علاوہ سدپارہ اور گومل زام ڈیم پربھی تیزی سے کام جاری ہے۔
ان منصوبوں کی تکمیل کے لئے امریکہ بھی پاکستان کو مالی امداد دے رہا ہے۔