وفاقی حکومت کی طرف سے 2009 میں تمام عوام کو2025 تک پینے کے صاف پانی کی دستیابی کو یقینی بنانے کی ایک مربوط حکمت عملی تیار کی گئی تھی جس کے تحت کام بھی جاری ہے لیکن وفاقی وزارت ماحولیات کے ڈائریکٹر جنرل
جاوید خان کے مطابق بہت سے اقدامات کرنے کے لیے وسائل کی کمی کا سامنا ہے اور ان کی رائے میں اگر ترقی یافتہ ممالک اور امدادی ادارے اس مالی خلا کو پر کر دیں تو 2015 تک ملک کی پچاس فیصد آبادی کو پینے کے محفوظ پانی کی دستیابی یقینی بنائی جا سکتی ہے۔
’’خاص طور پر سیلاب کے بعد تو مالی لحاظ سے صورت حال اور بھی خراب ہو گئی ہے، ان حالات میں مقرر کردہ اہداف کے حصول کے لیے کثیر بیرونی امداد کی ضرورت ہے‘‘۔
ایک اندازے کے مطابق اس وقت ملک کی تقریباً بیس فیصد آبادی کو پینے کا صاف پانی دستیاب ہے جبکہ باقی لوگ جو پانی پی رہے ہیں وہ کسی نہ کسی حد تک مضر صحت ہے۔ لیکن پاکستان تحفظ ماحالیات کے ڈائریکڑ جنرل آصف خان کے مطابق صورت حال اس سے بھی زیادہ خراب ہے’’مزید گہرائی سے کیے گئے تجزیے سے اب یہ بات سامنے آئی ہے کے نل کے ذریعے حاصل ہونے والے پانی میں سے صرف پانچ فیصد لوگوں کو ہی ایسا پانی مل رہا ہے جسے محفوظ قرار دیا جا سکتا ہے‘‘۔
ان کا کہنا تھا کہ گندا پانی پینے سے جہاں جانی نقصان ہو رہا ہے وہیں اس لحاظ سے ملک کو اقتصادی نقصان بھی ہو رہا ہے کہ بیمار ہونے والے افراد کے علاج معالجے پر صحت کے بجٹ کا ایک بڑا حصہ خرچ ہو جاتا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ صاف پانی کی فراہمی کا دائرہ بڑھانے کے لیے قلیل درمیانی اور طویل مدت کے کئی منصبوں پر کام جاری ہے جن میں پائپ لائنز کی مرمت اور تبدیلی ، دستیاب آبی وسائل کا تحفظ اور پانی صاف کرنے کے لئے فلڑیشن پلانٹ قائم کرنے کا منصوبہ شاَمل ہے۔
بچوں کے لیے اقوام متحدہ کا ادارہ یونیسیف پاکستان میں صاف پانی کی فراہمی کے سلسلے میں سرگرم ہے اور اس کے ایک عہدیدار عمرحتاب کا کہنا ہے’’
ہم پاکستان کے لیے بیرونی امداد کو متحرک کرنے ، پالیسی سازی میں مدد دینے اور متعلقہ حکام کی استعطاعت میں اضافے سمیت بہت سے اقدامات کر رہے ہیں‘‘۔