پاکستان کو پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے، اس قلت کے سبب کاروبار، کھیت اور آبادیوں کو قحط جیسی سنگین صورتحال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ پاکستان دنیا کے ان 180 ممالک کی فہرست میں 36 ویں نمبر پر ہے جہاں پانی کی کمی کی وجہ سے حکومت، معیشت اور عوام تینوں شدید دباؤ میں ہیں ۔
موسمی تبدیلی کے معاملات کی نگراں وزارت یعنی منسٹری آف کلائمیٹ چینج اسلام آباد کے ترجمان سلیم شیخ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کے دوران بتایا کہ پانی کی قلت سے متعلق رپورٹ امریکی ادارے’’ ورلڈ ریسورسز انسٹی ٹیوٹ‘‘ کے ایک سروے کے بعد سامنے آئی ہے۔
ترجمان کے مطابق سروے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان بہت تیزی سے پانی کے بحران کی طرف بڑھ رہا ہے۔ یہاں زراعت کے ساتھ ساتھ گھریلو اور صنعتی استعمال کے لئے موجود پانی بھی بہت تیزی سے ختم ہورہا ہے جس کے نتیجے میں کاروبار، کھیت اور آبادیوں کو قحط کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
ترجمان کے مطابق قحط سے بچنے کا سب سےکارگر نسخہ پانی کو محفوظ بنانا اور اسے درست طریقے سے استعمال کرنا ہے تبھی اس خطرے سے بچا جاسکتا ہے۔
سنگاپور پاکستان کے مقابلے میں زیادہ واٹر اسٹریس یعنی دباؤ کا شکار ہے۔ وہاں تازہ پانی کی جھیلیں یا ذخائر موجود نہیں اورپانی کی طلب فراہمی سے زیادہ ہے۔ اس کے باوجود عمدہ مینجمنٹ، عالمی معاہدوں اور ٹیکنالوجی میں بھاری سرمایہ کاری کی وجہ سے سنگاپورکا شمار بہترین ’واٹرمنیجرز‘ میں ہوتا ہے۔
پاکستان میں 60سال پہلے فی فرد 50 لاکھ لیٹر پانی دستیاب تھا۔ پانچ گنا کمی کے بعد آج کل یہ مقدار 10 لاکھ لیٹر رہ گئی ہے۔
ترجمان کے مطابق سن ساٹھ اور ستر کے عشرے میں تعمیر کئے گئے منگلا اور تربیلا ڈیمز کے بعد ملک میں پانی کا ذخیرہ کرنے کا کوئی پروجیکٹ نہیں بنایا گیا جس کے سبب صرف 120 دن تک کا ہی ذخیرہ کیا جاسکتا ہے ۔
وائس آف امریکہ کو جاری خصوصی رپورٹ کے مطابق 27 ملین سے بھی زیادہ پاکستانی پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں اور تقریبا 40 ملین پاکستانیوں کے پاس بیت الخلا دستیاب نہیں۔
گندے پانی اور ناقص صفائی کی وجہ سے ہر سال پانچ سال سے کم عمر کے تقریبا 39 ہزار بچے ہیضے کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
پریشرفیکٹرز
آبادی میں اضافہ، شہروں کی طرف ہجرت، کھیتوں میں زیادہ پانی کی ضرورت والی کاشت کاری، صنعتوں کا پھیلاؤ، ناقص انفرااسٹرکچر، لیکج کی وجہ سے سپلائی میں کمی۔
ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث پانی کی دستیابی کو خطرہ
ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث بارشوں کے کم یا زیادہ ہونے اور گلئیشرز کے پگھلنے کی وجہ سے زراعت کا شعبہ جو ملک میں پانی کا 96 فیصد استعمال کرتا ہے متاثر ہوگا۔
پانی کا رخ موڑنے یا ذخیرہ کرنے کے لئے اسٹوریج کا مناسب انتظام نہیں۔ زیادہ بارشیں اورسیلابوں کی وجہ سے فصلوں کو نقصان پہنچتا ہے اور زمین میں کٹاؤ کی وجہ سے کاشت کاری مشکل ہوتی جائے گی۔
مارچ 2012 میں اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کردہ ورلڈ واٹر ڈیولپمنٹ رپورٹ کے مطابق سیلاب سے متاثرہ ملکوں میں پاکستان نویں نمبر پر ہے۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے حکومت کو زراعت ،صنعت ،صحت اور توانائی کے شعبوں میں مربوط کوششیں کرنا ہوں گی۔
مسئلے کے حل کے لئے پالیسی
پانی کے ذخائر اور انفرا اسٹرکچر میں اضافہ، پانی کے مسائل کے بارے میں شعور پیدا کرنا اور بارش کے پانی سے کاشتکاری۔
طلب اور فراہمی کے سلسلے میں حکومت اور انفرادی سطح پر ہر شخص کو کردار ادا کرنا ہوگا۔ گھریلو اور صنعتی صارفین کو یکساں طور پر پانی کفایت شعاری سے استعمال کرنا ہوگا۔
زیادہ پانی کی فصلوں اور سیلابی پانی سے متعلق سخت قوانین بنانے ہوں گے۔
ایسے اقدامات کرنا ہوں گے جن کی وجہ سے بارش کے پانی سے کاشتکاری، گرے واٹر کی ری سائیکلنگ، واٹر پرائسنگ، پانی کے ذخائرمیں اضافے، پانی کی آلودگی میں کمی کے اقدامات کو فروغ ملے شہری آبادیوں میں متوازن اضافہ ہو۔
ایس ڈی جی نے استعمال کے قابل پانی کی دستیابی اور مینجمنٹ پر زور دیا ہے۔اس کے تحت ہر شخص کو صاف پانی کی فراہمی اور صحت و صفائی کی سہولتیں فراہم کرنے کو یقینی بنایا جائے۔ پانی کے بہتر اور کفایت شعاری کے ساتھ استعمال کے لئے اسکولوں اور میڈیا پرمہم چلائی جائے ۔