رسائی کے لنکس

مولانا سمیع الحق کا طالبان سے مذاکراتی عمل سے علیحدگی کا اعلان


جمیعت علمائے اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کے عمل سے علیحدگی کا اعلان کیا ہے۔

جمیعت علمائے اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کے عمل سے علیحدگی کا اعلان کیا ہے۔

گزشتہ 31 دسمبر کو مولانا سمیع الحق نے وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کے بعد کہا تھا کہ اُنھیں حکومت نے طالبان سے رابطہ کر کے مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کی ذمہ داری سونپی ہے۔

بدھ کو ایک بیان میں مولانا سمیع الحق نے کہا کہ طالبان کی جانب سے اُنھیں دو جنوری کو حوصلہ افزاء اور مثبت جواب ملا کہ وہ مستحکم اور ’بامعنی‘ مذاکرات پر یقین رکھتے ہیں۔

اپنے ایک بیان میں مولانا سمیع الحق کا کہنا تھا کہ اُنھوں نے دو جنوری کی رات ہی وزیراعظم نواز شریف کو اس سے آگاہ کر دیا تھا ’’ اور میں انتظار کرنے لگا کہ کسی میکنزم یا اسٹریٹجی سے مجھے آگاہ کر دیا جائے گا، مجھے یقین تھا کہ اس حساس ترین مسئلہ پر وزیراعظم اسی رات نہیں تو دوسرے دن علی الصبح مجھے اس بارے میں آگاہ کر دیں گے مگر ایسا نا ہوا‘‘۔

مولانا سمیع الحق
مولانا سمیع الحق

تاحال حکومت کی طرف سے مولانا سمیع الحق کے اس فیصلے پر کسی طرح کا رد عمل سامنے نہیں آیا۔

اُدھر پاکستان کے وفاقی وزیر برائے دفاعی پیداوار رانا تنویر حسین نے کہا ہے کہ شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کے ٹھکانوں کے خلاف فضائی کارروائی کو باقاعدہ فوجی آپریشن کا آغاز کہنا درست نہیں۔

اُنھوں نے بدھ کو ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ اگر سکیورٹی فورسز پر حملے کیے گئے تو اس کا جواب تو دیا جائے گا۔

’’آپریشن کے بارے میں جس طرح باقاعدہ طور پر کابینہ یا حکومت کا فیصلہ ہوتا ہے اُس طرح کا (یہ فیصلہ) نہیں، لیکن جہاں بھی ضرورت پڑی اس طرح کے ایکشن کیے جائیں گے۔‘‘

پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں پیر اور منگل کی شب سکیورٹی فورسز کے فضائی حملے میں عسکری ذرائع کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں 36 غیر ملکی جنگجو بھی شامل ہیں۔

عسکری حکام کے مطابق سکیورٹی فورسز نے جیٹ طیاروں کی مدد سے میر علی اور میران شاہ کے گرد و نواح میں مشتبہ عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا تھا۔

بدھ کو عسکری ذرائع نے بتایا کہ ہلاک ہونے والے جنگجوؤں میں 33 ازبک اور تین جرمن عسکریت پسند شامل تھے۔

فائل فوٹو
فائل فوٹو

جب کہ پاکستان کے سرکاری میڈیا کے مطابق ان کارروائیوں میں شدت پسندوں کے اہم کمانڈروں ولی محمد، عصمت اللہ شاہین بیٹنی، نور بادشاہ اور مولوی فرہاد ازبک بھی مارا گیا۔

ذرائع ابلاغ کی ان علاقوں میں رسائی نہ ہونے کی وجہ سے یہاں ہونے والے جانی نقصان کی آزاد ذرائع سے تصدیق تقریباً ناممکن ہے۔

افغان سرحد سے ملحقہ اس قبائلی علاقے میں ملکی و غیر ملکی عسکریت پسندوں نے محفوظ پناہ گاہیں قائم کر رکھی ہیں جہاں سے وہ ملک کے مختلف علاقوں میں دہشت گردانہ کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔

حالیہ دنوں میں ہونے والے بم حملوں میں سکیورٹی اہلکاروں سمیت 30 سے زائد افراد ہلاک ہوئے اور انھی کہ رد عمل میں شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ حکومت کو دہشت گردوں کے خلاف کارروائی سے متعلق سیاسی قیادت کو اعتماد میں لینا چاہیئے۔

’’پارلیمانی جماعتوں کے سربراہوں کا کم از کم ایک اجلاس بلاتے، ہمیں (ان کیمرہ) بریفنگ دیتے…. اب آگے کیا ہوتا ہے ہم پاکستانی فوج کے ساتھ کھڑے ہیں، پاکستانی فوج نے بڑی قربانیاں دی ہیں۔‘‘
XS
SM
MD
LG