پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کے مشیر برائے قومی سلامتی سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ دوطرفہ مذاکرات سے قبل بھارت کی جانب سے اپنایا جانے والا رویہ افسوسناک ہے۔
تاہم اُن کا کہنا تھا کہ وہ بغیر کسی پیشگی شرط کے اب بھی بھارت جانے کے لیے تیار ہیں۔
ہفتہ کو اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سرتاج عزیز نے کہا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ تمام تصفیہ طلب معاملات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہتا ہے لیکن ان کے بقول بھارت کی شرائط پر بات چیت اسے قبول نہیں۔
دونوں ملکوں کے مشیروں کی ملاقات بھارت نے تجویز کی تھی جس میں شرکت کے لیے سرتاج عزیز کو 23 اگست کو نئی دہلی جانا ہے۔
لیکن جمعہ کو بھارتی وزارت خارجہ کی طرف سے اس تجویز کے بعد کہ پاکستانی عہدیدار نئی دہلی میں کشمیری رہنماؤں سے ملاقات نہ کریں، اس ملاقات سے متعلق ابہام کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ بھارت ایک بار پھر مذاکرات سے پیچھے ہٹ رہا ہے اور اُنھوں نے بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ بھارت کے اس رویے کا نوٹس لے۔
واضح رہے کہ بھارت کی طرف سے بھی پاکستان پر یہ الزام لگایا گیا کہ وہ بات چیت نہیں کرنا چاہتا۔
سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان کشمیر بنیادی تنازع ہے اور اسے حل کیے بغیر امن ممکن نہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ جب سے بھارت میں نریندر مودی کی حکومت آئی ہے وہ اپنی شرائط پر پاکستان سے بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔
’’اُن شرائط میں میرے خیال میں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ کشمیر کے بارے میں بات نا کریں، یا اُسے بھول جائیں یا اُس کو اہمیت کم دیں۔ ظاہر ہے یہ ہمارے لیے ممکن نہیں ہے۔‘‘
بھارت کا کہنا ہے کہ روس کے شہر ’اوفا‘ میں دونوں ممالک کے وزرائے اعظم کے درمیان ملاقات میں یہ طے پایا تھا کہ قومی سلامتی کے مشیروں کی ملاقات میں دہشت گردی کے معاملے پر ہی بات چیت ہو گی۔
لیکن سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ ’اوفا‘ میں جس بات پر اتفاق کیا گیا اُس کے مطابق دہشت گردی سے جڑے معاملات کے علاوہ ماہی گیروں کی رہائی اور کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے علاوہ ورکنگ باؤنڈری پر کشیدگی کی صورت حال پر بھی بات چیت کی جائے گی۔
سرتاج عزیز نے کہا کہ پاکستان نے قومی سلامتی کے مشیروں کی سطح کے مذاکرات کے لیے جو ایجنڈا تجویز کیا ہے اُس میں یہ نہیں کہا گیا کہ صرف کشمیر پر جامع مذاکرات کیے جائیں۔
اُنھوں نے کہا کہ وہ پاکستان میں بھارت کے انٹیلی جنس ادارے ’را‘ کی سرگرمیوں سے متعلق شواہد بھی ساتھ لے کر جائیں گے۔
’’اگر 24 اگست کو (بھارت) کو یہ دستاویزات فراہم کرنے کا موقع نہ مل سکا، تو امید ہے کہ آئندہ ماہ اگر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر (بھارت کے مشیر برائے قومی سلامتی) اجیت دوول آئے تو اُنھیں وہاں فراہم کروں گا۔ یہ دستاویزات مسٹر دوول کے حوالے کرنے کے بعد میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے حوالے بھی کر سکتا ہوں۔‘‘
واضح رہے کہ کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر فائرنگ و گولہ باری کے تبادلے کے پے در پے واقعات کے بعد پاکستان اور بھارت کے تعلقات کشیدہ ہیں۔
پاکستان کے سیکرٹری خارجہ کے مطابق گزشتہ دو ماہ کے دوران بھارت نے لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری کی 100 سے زائد مرتبہ خلاف ورزی کی ہے۔
بھارت بھی پاکستان پر ایسے ہی الزامات عائد کرتا ہے۔