پاکستان سے تعلق رکھنے والی انسانی حقوق کی سرگرم کارکن سیدہ غلام فاطمہ کو اتوار کو ان کی خدمات کے اعتراف میں نیویارک میں گلوبل سٹییزن شپ ایوارڈ سے نوازا گیا۔
یہ ایوارڈ سابق امریکی صدر بل کلنٹن کی تنظیم کلنٹن فاؤنڈیشن کی جانب سے ان افراد کو دیے جاتے ہیں جو اپنی سوچ اور قائدانہ صلاحیتوں کے ذریعے درپیش مسائل کا حل ڈھونڈ کر معاشرے میں پائیدار و مثبت تبدیلی لائیں خود کو دنیا کے لیے ایک مفید شہری ثابت کریں۔
سیدہ غلام فاطمہ بانڈڈ لیبر لبریشن فرنٹ پاکستان کی جنرل سیکرٹری ہیں اور بھٹہ مزدوروں کے حقوق کے لیے کئی سال سے سرگرم ہیں۔
انہوں نے انیٹوں کے بھٹوں میں کام کرنے والے کئی خاندانوں کو بھٹہ مالکان کے جبروتشدد سے رہائی دلانے میں مدد دی اور ان کے معاوضوں اور کام کے حالات میں بہتری کے لیے کوشاں ہیں۔
وہ خود بھی ماضی میں اینٹیں بنانے کا کام کرتی تھیں اور ان کو اپنے کام کے دوران کئی مرتبہ تشدد کا سامنا کرنا پڑا مگر پھر انہوں نے اپنے جیسے دیگر مزدوروں کی زندگی میں بہتری کے لیے تنظیم قائم کی۔
سیدہ غلام فاطمہ کو اس وقت عالمی شہرت ملی جب فوٹو بلاگ ’ہیومنز آف نیویارک‘ کے خالق برینڈن اسٹینٹن نے اس سال اگست میں ان کی زندگی کام اور بھٹہ مزدوروں کے حالات کے بارے میں سات تصاویر اپنے بلاگ پر شائع کیں، جس کے بعد دنیا بھر سے لوگوں نے ان کے کام سے متاثر ہو کر ان کی تنظیم کے لیے بیس لاکھ ڈالر سے زائد کے عطیات بھیجے۔
عطیات جمع ہونے کے بعد سیدہ غلام فاطمہ نے اپنی تنظیم کے دائرہ کار بڑھانے کا فیصلہ کیا تھا۔
پاکستان میں جبری مشقت کرنے والوں کی تعداد کے بارے میں مستند اعداد و شمار تو موجود نہیں ہیں تاہم سیدہ غلام فاطمہ کی غیر سرکاری تنظیم ’بانڈڈ لیبر لبریشن فرنٹ‘ کے اندازے کے مطابق پاکستان میں 45 لاکھ مزدور بھٹوں پر مزدوری کرتے ہیں جن میں بچے اور خواتیں بھی شامل ہیں اور ان کی اکثریت مشکل حالات میں کام کر رہی ہے۔