خواتین کے تحفظ کے لیے حالیہ برسوں میں سخت قوانین بنائے جانے کے باوجود پاکستان میں خاص طور پر غیرت کے نام پر قتل کی وارداتوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
تازہ ترین واقعہ پنجاب کے ضلع گجرات میں پیش آیا جہاں ایک بھائی نے "غیرت کے نام" پر اپنی بہن کو قتل کر کے خود کو پولیس کے حوالے کردیا۔
مقامی پولیس نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس واقعے کی تصدیق کی جس میں کولیان حبیب نامی گاؤں میں 45 سالہ محمد طفیل نے اپنی 31 سالہ بہن رخسانہ کوثر کو قتل کیا۔
بتایا جاتا ہے کہ یہ خاتون اپنے خاوند سے تنازع کے باعث اپنے والدین کے گھر پر ہی رہ رہی تھی۔ اس کے بھائی کو شبہ تھا کہ خاتون کا کسی دوسرے مرد سے مبینہ تعلق تھا جس بنا پر اس نے پیر کو اسے قتل کردیا۔
خاتون کے والدین نے پولیس کو بتایا کہ جب انھوں نے رخسانہ کو بچانے کی کوشش کی تو طفیل نے مبینہ طور پر انھیں بھی جان سے مار دینے کی دھمکی دی۔
شائع شدہ اطلاعات کے مطابق حالیہ ہفتوں میں گجرات اور گردو نواح کے علاقوں میں "غیرت کے نام" پانچ خواتین کو اپنے ہی رشتے داروں کے ہاتھوں قتل کیے جانے کے واقعات پیش آ چکے ہیں۔
گزشتہ ہفتے دسویں جماعت کی ایک طالبہ کو سرائے عالمگیر کے علاقے میں اس کے والدین اور بھائی نے مبینہ طور پر قتل کر دیا جب کہ گزشتہ ماہ ایک خاتون ڈاکٹر کو مبینہ طور پر ان کے شوہر اور دیور نے مل کر قتل کیا۔
ان میں سے اکثر واقعات کے مقدمات پولیس حکام کی مدعیت میں درج کیے گئے ہیں تاکہ ملزمان سزا سے نہ بچ سکیں۔
غیرت کے نام پر قتل کے واقعات میں ماضی میں یہ ہوتا رہا ہے کہ مقتولہ کے لواحقین میں سے کوئی بھی قاتل کو معاف کر دیا کرتا تھا جس کی وجہ سے قاتل سزا سے بچ جایا کرتا تھا۔
لیکن گزشتہ سال غیرت کے نام پر قتل کے تدارک کے لیے بنائے گئے قانون میں یہ شق شامل ہے کہ اگر قتل کو مدعی معاف بھی کردے تو بھی وہ عمر قید کی سزا سے نہیں بچ سکے گا۔
پاکستان میں قتل کی سزا قانون کے مطابق موت ہے۔