اسلام آباد —
پاکستان میں حقوق نسواں کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں نے سال کے پہلے تین ماہ میں خواتین کے خلاف تشدد بشمول جنسی زیادتی کے واقعات میں اضافے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
عورت فاؤنڈیشن کے مطابق ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں رواں سال یکم جنوری سے 31 مارچ تک خواتین پر تشدد کے 1400 واقعات رپورٹ ہوئے جن میں قتل، اغوا، خودکشی اور جنسی زیادتی کے واقعات شامل ہیں۔
تنظیم کے پنجاب میں ایک عہدیدارعابد علی نے وائس آف امریکہ کو اس کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ خواتین کے خلاف تشدد و زیادتی کے سب سے زیادہ کیسز ضلع فیصل آباد میں ہوئے جن کی تعداد 282 رہی جب کہ صوبائی دارالحکومت لاہور اس فہرست میں دوسرے نمبر پر ہے۔
انھوں نے بتایا کہ خواتین کے خلاف تشدد کے ضمن میں جنوری سے مارچ تک سب سے زیادہ اغوا کے کیس رپورٹ ہوئے جن کی تعداد 378 بنتی ہے۔
"جنسی زیادتی کے 265، قتل کے 207، خودکشی کے 110، غیرت کے نام پر قتل کے 67 کیسز سامنے آئے جب کہ خواتین کو ونی کرنے کے سات اور تیزاب سے ان پر حملہ کرنے کے 16 واقعات پہلے تین ماہ میں رپورٹ ہوئے۔"
عابد علی نے بتایا کہ محرم کے ہاتھوں جنسی زیادتی کا شکار ہونے والی خواتین کی تعداد میں بھی اضافہ دیکھا گیا اور سال کی پہلی سہ ماہی میں چھ خواتین اپنے ہی رشتے داروں کے ہاتھوں عصمت دری کا شکار ہوئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات تو ہوتے رہے ہیں لیکن اب متحرک ذرائع ابلاغ کی وجہ سے ایسے واقعات منظر عام پر بھی آنا شروع ہوئے ہیں اور لوگوں کو ان کی بابت معلوم ہونا شروع ہوگیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کے بھی مثبت اور منفی پہلو ہیں جن پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
"لوگوں میں شعور آرہا ہے کہ جب پولیس اسٹیشن یا عدالت میں ان کی شنوائی نہیں ہوتی تو وہ میڈیا کا رخ کرتے ہیں اور اب جو آمنہ کا کیس ہوا اس میں اس لڑکی کو اپنا کیس آگے لانے کے لیے خودسوزی کرنا پڑی۔۔۔ تو اس کے اچھے اور برے پہلو ہیں کہ لوگ یہ سوچتے ہیں کہ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو کوئی ہماری بات نہیں سنے گا کوئی وزیراعلیٰ ہمارے ہاں نہیں آئے گا۔"
گزشتہ ماہ مظفرگڑھ میں جنسی زیادتی کی شکار لڑکی آمنہ نے پولیس کی طرف سے مبینہ جانبدارانہ سلوک کی وجہ سے خودسوزی کرلی تھی اور بعد ازاں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اسپتال میں دم توڑ گئی تھی۔
اس واقعے کا سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیا اور وزیراعلیٰ پنجاب نے غفلت برتنے پر پولیس اہلکاروں کی معطلی اور سرزنش جیسے اقدامات بھی کیے۔
حقوق نسواں کی غیر سرکاری تنظیمیں ملک میں موجود قوانین پر عملدرآمد پر زور دیتی آئی ہیں کیونکہ ان کے بقول قانون کے موثر نفاذ کے بغیر اس کی حیثیت صرف ایک دستاویز سے زیادہ کچھ نہیں رہتی۔
خواتین پر تشدد کے خلاف سرگرم تنظیموں کی طرف سے اسلام آباد میں ایک مباحثے کا اہتمام کیا گیا جس میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے بنائے گئے قوانین پر عمل درآمد میں درپیش مشکلات اور ان کے ازالے پر بحث کی گئی۔
مباحثے میں خصوصاً جنسی زیادتی کا شکار خواتین کے مقدمات میں قانونی کارروائی اور نظام انصاف میں سقم کا تذکرہ بھی کیا گیا۔
یہاں موجود اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر محسن کیانی کا کہنا تھا کہ ایسے مقدمات میں واقعاتی شہادت کی بجائے صرف گواہی پر توجہ مرکوز رکھی جاتی ہے جس سے اکثر انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوپاتے۔
"ہمیں جو بنیادی مسئلہ آتا ہے کریمنل جسٹس میں ہم گواہی پر توجہ دیتے ہیں اور جج بھی آخری وقت تک اس سے باہر نہیں جاتا، دنیا میں واقعاتی شہادت پر بات ہوتی ہے اگر واقعاتی شہادت اور گواہی میں کوئی ربط ہو تو پھر اس پر یقین کر لیا جاتا ہے۔"
ان کا کہنا تھا کہ خاص طور پر پولیس اسٹیشن میں موجود عملے کا اس بارے میں قوانین سے مکمل آگاہ ہونا ضروری ہے اور اس کے ساتھ ساتھ تحصیل اور ضلع کی سطح پر خاص طور پر ایسے استغاثہ کا تقرر کیا جائے جو صرف اور صرف جنسی زیادتی کے مقدمات پر کام کرے۔
شرکا کی طرف سے ایک اور مسئلے کی جانب بھی توجہ مبذول کروائی گئی اور وہ تھی ملک میں خواتین پولیس کی ناکافی تعداد۔ خواتین پولیس افسران اور اہلکاروں کی شرح کل پولیس فورس کا ایک فیصد سے بھی کم بنتی ہے۔
وزارت داخلہ کے عہدیداروں کے مطابق ملک میں خواتین پولیس کی تعداد بڑھانے سمیت ان کے کردار کو بڑھانے پر بھی کام ہو رہا ہے۔ حکام کے بقول خواتین سے متعلق قوانین کی فہرست خاص طور پر تیار کروا کر پولیس اسٹیشنز میں مہیا کی جائیں گی تاکہ ایسے واقعات کے رپورٹ ہونے پر قانون کے مطابق اس پر کارروائی کو یقینی بنایا جاسکے۔
عورت فاؤنڈیشن کے مطابق ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں رواں سال یکم جنوری سے 31 مارچ تک خواتین پر تشدد کے 1400 واقعات رپورٹ ہوئے جن میں قتل، اغوا، خودکشی اور جنسی زیادتی کے واقعات شامل ہیں۔
تنظیم کے پنجاب میں ایک عہدیدارعابد علی نے وائس آف امریکہ کو اس کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ خواتین کے خلاف تشدد و زیادتی کے سب سے زیادہ کیسز ضلع فیصل آباد میں ہوئے جن کی تعداد 282 رہی جب کہ صوبائی دارالحکومت لاہور اس فہرست میں دوسرے نمبر پر ہے۔
انھوں نے بتایا کہ خواتین کے خلاف تشدد کے ضمن میں جنوری سے مارچ تک سب سے زیادہ اغوا کے کیس رپورٹ ہوئے جن کی تعداد 378 بنتی ہے۔
"جنسی زیادتی کے 265، قتل کے 207، خودکشی کے 110، غیرت کے نام پر قتل کے 67 کیسز سامنے آئے جب کہ خواتین کو ونی کرنے کے سات اور تیزاب سے ان پر حملہ کرنے کے 16 واقعات پہلے تین ماہ میں رپورٹ ہوئے۔"
عابد علی نے بتایا کہ محرم کے ہاتھوں جنسی زیادتی کا شکار ہونے والی خواتین کی تعداد میں بھی اضافہ دیکھا گیا اور سال کی پہلی سہ ماہی میں چھ خواتین اپنے ہی رشتے داروں کے ہاتھوں عصمت دری کا شکار ہوئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات تو ہوتے رہے ہیں لیکن اب متحرک ذرائع ابلاغ کی وجہ سے ایسے واقعات منظر عام پر بھی آنا شروع ہوئے ہیں اور لوگوں کو ان کی بابت معلوم ہونا شروع ہوگیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کے بھی مثبت اور منفی پہلو ہیں جن پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
"لوگوں میں شعور آرہا ہے کہ جب پولیس اسٹیشن یا عدالت میں ان کی شنوائی نہیں ہوتی تو وہ میڈیا کا رخ کرتے ہیں اور اب جو آمنہ کا کیس ہوا اس میں اس لڑکی کو اپنا کیس آگے لانے کے لیے خودسوزی کرنا پڑی۔۔۔ تو اس کے اچھے اور برے پہلو ہیں کہ لوگ یہ سوچتے ہیں کہ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو کوئی ہماری بات نہیں سنے گا کوئی وزیراعلیٰ ہمارے ہاں نہیں آئے گا۔"
گزشتہ ماہ مظفرگڑھ میں جنسی زیادتی کی شکار لڑکی آمنہ نے پولیس کی طرف سے مبینہ جانبدارانہ سلوک کی وجہ سے خودسوزی کرلی تھی اور بعد ازاں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اسپتال میں دم توڑ گئی تھی۔
اس واقعے کا سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیا اور وزیراعلیٰ پنجاب نے غفلت برتنے پر پولیس اہلکاروں کی معطلی اور سرزنش جیسے اقدامات بھی کیے۔
حقوق نسواں کی غیر سرکاری تنظیمیں ملک میں موجود قوانین پر عملدرآمد پر زور دیتی آئی ہیں کیونکہ ان کے بقول قانون کے موثر نفاذ کے بغیر اس کی حیثیت صرف ایک دستاویز سے زیادہ کچھ نہیں رہتی۔
خواتین پر تشدد کے خلاف سرگرم تنظیموں کی طرف سے اسلام آباد میں ایک مباحثے کا اہتمام کیا گیا جس میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے بنائے گئے قوانین پر عمل درآمد میں درپیش مشکلات اور ان کے ازالے پر بحث کی گئی۔
مباحثے میں خصوصاً جنسی زیادتی کا شکار خواتین کے مقدمات میں قانونی کارروائی اور نظام انصاف میں سقم کا تذکرہ بھی کیا گیا۔
یہاں موجود اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر محسن کیانی کا کہنا تھا کہ ایسے مقدمات میں واقعاتی شہادت کی بجائے صرف گواہی پر توجہ مرکوز رکھی جاتی ہے جس سے اکثر انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوپاتے۔
"ہمیں جو بنیادی مسئلہ آتا ہے کریمنل جسٹس میں ہم گواہی پر توجہ دیتے ہیں اور جج بھی آخری وقت تک اس سے باہر نہیں جاتا، دنیا میں واقعاتی شہادت پر بات ہوتی ہے اگر واقعاتی شہادت اور گواہی میں کوئی ربط ہو تو پھر اس پر یقین کر لیا جاتا ہے۔"
ان کا کہنا تھا کہ خاص طور پر پولیس اسٹیشن میں موجود عملے کا اس بارے میں قوانین سے مکمل آگاہ ہونا ضروری ہے اور اس کے ساتھ ساتھ تحصیل اور ضلع کی سطح پر خاص طور پر ایسے استغاثہ کا تقرر کیا جائے جو صرف اور صرف جنسی زیادتی کے مقدمات پر کام کرے۔
شرکا کی طرف سے ایک اور مسئلے کی جانب بھی توجہ مبذول کروائی گئی اور وہ تھی ملک میں خواتین پولیس کی ناکافی تعداد۔ خواتین پولیس افسران اور اہلکاروں کی شرح کل پولیس فورس کا ایک فیصد سے بھی کم بنتی ہے۔
وزارت داخلہ کے عہدیداروں کے مطابق ملک میں خواتین پولیس کی تعداد بڑھانے سمیت ان کے کردار کو بڑھانے پر بھی کام ہو رہا ہے۔ حکام کے بقول خواتین سے متعلق قوانین کی فہرست خاص طور پر تیار کروا کر پولیس اسٹیشنز میں مہیا کی جائیں گی تاکہ ایسے واقعات کے رپورٹ ہونے پر قانون کے مطابق اس پر کارروائی کو یقینی بنایا جاسکے۔