مقامی حکام کے مطابق امریکی امدادی تنظیم ’امریکن رفیوجیز کمیٹی‘ کے آٹھ ملازمین افغان مہاجرین کے لیے ضلعی پشین میں قائم ایک کیمپ میں امدادی سامان اور خوراک تقسیم کرنے کے بعد پیر کی شام گاڑی میں واپس کوئٹہ آ رہے تھے جب راستے میں نامعلوم مسلح افراد نے انھیں اغواء کر لیا۔
ضلع پشین کے ڈپٹی کمشنر حبیب اللہ خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ مغوی امدادی کارکنوں کی تلاش کے لیےعلاقے میں آپریشن جاری ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی تنظیم یو این ایچ سی آر کی مدد سے امریکی امدادی تنظیم کے کارکن کوئٹہ سے تقریباَ پچاس کلومیٹر دور سرخاب روڈ پر واقع مہاجر کیمپ میں ایک ہسپتال بھی چلا رہے تھے جبکہ تنظیم مقامی لوگوں کو ابتدائی طبی امداد دینے کی تربیت فراہم کرنے میں بھی مصروف ہے۔
انھوں نے بتایا کہ مغوی افراد کی بازیابی کے لیے پاکستان اور افغانستان کے سر حدی اضلاع قلعہ سیف اللہ، قلعہ عبد اللہ، چمن کی انتظامیہ اور ایف سی کو الرٹ رہنے اور علاقے میں سرچ آپریشن کے لیے کہا گیا ہے اور ضلع پشین سے افغان سرحد اور دیگر اضلاع کی طر ف نکلنے والے راستوں پر بھی ناکہ بند ی کر دی گئی ہے۔
امریکن رفیوجیز کمیٹی اس علاقے میں گزشتہ تقریباَ نو سال سے امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہے اور اس میں کام کر نے والے تمام ملازمین مقامی باشندے ہیں۔ اغوا کی ذمہ داری تاحال کسی گروپ نے قبول نہیں کی ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے کوئٹہ کے مضافاتی علاقے سورینج سے پی ایم ڈی سی کے تین اعلیٰ افسران سمیت پانچ افراد جبکہ اسی مہینے کے پہلے ہفتے میں ضلع لورالائی کے علاقے سے سوئیٹزرلینڈ سے تعلق رکھنے والے ایک سیاحتی جوڑے کو بھی اغواء کیا گیاتھا لیکن پولیس انھیں ابھی تک بازیاب نہیں کراسکی ہے۔
اگرچہ اغوا کے تازہ واقعہ کی ذمہ داری کسی تنظیم نے قبول نہیں کی ہے لیکن حکام کو شبہ ہے کہ اس کے پیچھے علیحدگی پسند بلوچ عسکری تنظیمیں ملوث ہو سکتی ہیں۔
انسانی حقوق کی ایک بڑی تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے بلوچستان پر ایک تازہ جائزہ رپورٹ میں کہا ہے کہ صوبے میں امن وامان کی صورت حال مسلسل خراب ہو رہی ہے جس میں اغوا برائے تاوان کے واقعات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔