پاکستان کے شمالی علاقے گلگت بلتستان میں ڈیم کی تعمیر کے لیے قرضے سے متعلق وزارت خزانہ اور عالمی بنک کے حکام کے درمیان مذاکرات بدھ کو بھی جاری رہے۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی سربراہی میں ہونے والے ان مذاکرات میں سرکاری عہدیداروں کے مطابق عالمی بنک کے حکام سے مجوزہ قرضے کی فراہمی کے طریقہ کار اور شرائط پر بات چیت کی گئی۔
گزشتہ روز عالمی بنک کی دیامیر بھاشا ڈیم کے منصوبے کے لیے پاکستانی حکام کے بقول سرمایہ فراہم کرنے پر رضامندی کے بعد ان مذاکرات کا انعقاد وزارت خزانہ میں ہوا۔
2011 میں پیپلز پارٹی کی سابقہ مخلوط حکومت میں اس منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا گیا مگر اس کے ڈیزائن اور تعمیر سے پیدا ہونے والے ممکنہ موحولیاتی اثرات کے علاوہ ورلڈ بنک کی جانب سے ڈیم کے مقام پر بھی اعتراضات اٹھائے گئے۔
پاکستانی حکام کے مطابق ان اعتراضات کے پیش نظر نا صرف منصوبے کے ڈیزائن میں تبدیلی کی گئی بلکہ پاکستانی ٹیم نے عالمی ادارے کے حکام کو اس بات پربھی قائل کیا کہ اس ڈیم کی تعمیر متنازع ریاست کشمیر میں ہونے کے باوجود اس منصوبے سے متعلق بھارت کی رضا مندی کی ضرورت نہیں۔
ایک سرکاری عہدیدار کے مطابق قرضے کی شرائط اور طریقہ کار کے طے کرنے میں کافی وقت درکار ہوسکتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کو مکمل ہونے میں کم از کم دس سال لگ سکتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں سینئیر معاشی تجزیہ نگار شاہد الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ’’دو، تین سال کا عرصہ تو آپ کو اس کی انجنئیرنگ فیزیبلٹی، انٹرنیشنل بڈنگ اور مشیر کے تقرر کرنے میں لگ جائیں گے۔ آخری بار جو اس کی تعمیر پر تخمینہ لگایا گیا وہ 11.5 ارب ڈالر تھا اب دوبارہ سے آپ کو وہی عمل کرنا ہوگا۔‘‘
پاکستان کو توانائی کے شدید بحران کا سامنا ہے جو کہ حکومت میں شامل عہدیداروں کے مطابق ملک کی کمزور معیشت کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ دیامیر بھاشا ڈیم سے 4500 میگا واٹ بجلی حاصل ہوگی۔
ورلڈ بنک سے پہلے بین الاقوامی مالیاتی ادارہ آئی ایم ایف بھی نواز شریف حکومت کو 5.3 ارب ڈالر فراہم کرنے پر رضا مندی ظاہر کرچکا ہے۔ تاہم اب حکومت اس قرضے میں دو ارب ڈالر کا اضافہ چاہتی ہے۔
وزارت خزانہ کے عہدیداروں کے مطابق 7.3 ارب ڈالر قرضہ لینے کی غرض سے آئی ایم ایف کی پیشگی ایک شرط کے تحت حکومت کی ہدایت پر اسٹیٹ بنک نے منگل کو مارکیٹ سے 10 کروڑ ڈالر کی خریداری کی۔
وزارت خزانہ کے حکام کا کہنا تھا کہ اس خریداری کا مقصد ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں اس حد تک اضافہ کرنا ہے تاکہ آئی ایم ایف کی قرضے کی قسط اور درآمدات کے بل کی حالیہ ادائیگیوں کے بعد بھی خزانے میں کچھ رقم باقی رہے۔
شاہد الرحمٰن کہتے ہیں یہ صورتحال ’’طویل المدت‘‘ پالیسی کے فقدان کی وجہ سے ہے۔
’’ بدقسمتی سے ہمارے ایکنامک منیجرز وقتی تدارک پر یقین رکھتے ہیں۔ اس لیے وہ ایک سے قرضے لے کر دوسرے کا قرضہ اتارتے ہیں۔ ان کا مقصد سیاسی طور پر زندہ رہنا ہوتا ہے۔‘‘
آئندہ ماہ آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کا اجلاس متوقع ہے جس میں پاکستان کی قرضے کی درخواست پر غور کیا جائے گا۔
حکومت میں شامل عہدیداروں کے مطابق اس رقم کا بڑا حصہ ماضی میں آئی ایم ایف سے لیے گئے قرضے کی ادائیگی کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی سربراہی میں ہونے والے ان مذاکرات میں سرکاری عہدیداروں کے مطابق عالمی بنک کے حکام سے مجوزہ قرضے کی فراہمی کے طریقہ کار اور شرائط پر بات چیت کی گئی۔
گزشتہ روز عالمی بنک کی دیامیر بھاشا ڈیم کے منصوبے کے لیے پاکستانی حکام کے بقول سرمایہ فراہم کرنے پر رضامندی کے بعد ان مذاکرات کا انعقاد وزارت خزانہ میں ہوا۔
2011 میں پیپلز پارٹی کی سابقہ مخلوط حکومت میں اس منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا گیا مگر اس کے ڈیزائن اور تعمیر سے پیدا ہونے والے ممکنہ موحولیاتی اثرات کے علاوہ ورلڈ بنک کی جانب سے ڈیم کے مقام پر بھی اعتراضات اٹھائے گئے۔
پاکستانی حکام کے مطابق ان اعتراضات کے پیش نظر نا صرف منصوبے کے ڈیزائن میں تبدیلی کی گئی بلکہ پاکستانی ٹیم نے عالمی ادارے کے حکام کو اس بات پربھی قائل کیا کہ اس ڈیم کی تعمیر متنازع ریاست کشمیر میں ہونے کے باوجود اس منصوبے سے متعلق بھارت کی رضا مندی کی ضرورت نہیں۔
ایک سرکاری عہدیدار کے مطابق قرضے کی شرائط اور طریقہ کار کے طے کرنے میں کافی وقت درکار ہوسکتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کو مکمل ہونے میں کم از کم دس سال لگ سکتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں سینئیر معاشی تجزیہ نگار شاہد الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ’’دو، تین سال کا عرصہ تو آپ کو اس کی انجنئیرنگ فیزیبلٹی، انٹرنیشنل بڈنگ اور مشیر کے تقرر کرنے میں لگ جائیں گے۔ آخری بار جو اس کی تعمیر پر تخمینہ لگایا گیا وہ 11.5 ارب ڈالر تھا اب دوبارہ سے آپ کو وہی عمل کرنا ہوگا۔‘‘
پاکستان کو توانائی کے شدید بحران کا سامنا ہے جو کہ حکومت میں شامل عہدیداروں کے مطابق ملک کی کمزور معیشت کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ دیامیر بھاشا ڈیم سے 4500 میگا واٹ بجلی حاصل ہوگی۔
ورلڈ بنک سے پہلے بین الاقوامی مالیاتی ادارہ آئی ایم ایف بھی نواز شریف حکومت کو 5.3 ارب ڈالر فراہم کرنے پر رضا مندی ظاہر کرچکا ہے۔ تاہم اب حکومت اس قرضے میں دو ارب ڈالر کا اضافہ چاہتی ہے۔
وزارت خزانہ کے عہدیداروں کے مطابق 7.3 ارب ڈالر قرضہ لینے کی غرض سے آئی ایم ایف کی پیشگی ایک شرط کے تحت حکومت کی ہدایت پر اسٹیٹ بنک نے منگل کو مارکیٹ سے 10 کروڑ ڈالر کی خریداری کی۔
وزارت خزانہ کے حکام کا کہنا تھا کہ اس خریداری کا مقصد ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں اس حد تک اضافہ کرنا ہے تاکہ آئی ایم ایف کی قرضے کی قسط اور درآمدات کے بل کی حالیہ ادائیگیوں کے بعد بھی خزانے میں کچھ رقم باقی رہے۔
شاہد الرحمٰن کہتے ہیں یہ صورتحال ’’طویل المدت‘‘ پالیسی کے فقدان کی وجہ سے ہے۔
’’ بدقسمتی سے ہمارے ایکنامک منیجرز وقتی تدارک پر یقین رکھتے ہیں۔ اس لیے وہ ایک سے قرضے لے کر دوسرے کا قرضہ اتارتے ہیں۔ ان کا مقصد سیاسی طور پر زندہ رہنا ہوتا ہے۔‘‘
آئندہ ماہ آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کا اجلاس متوقع ہے جس میں پاکستان کی قرضے کی درخواست پر غور کیا جائے گا۔
حکومت میں شامل عہدیداروں کے مطابق اس رقم کا بڑا حصہ ماضی میں آئی ایم ایف سے لیے گئے قرضے کی ادائیگی کے لیے استعمال کیا جائے گا۔