اسلام آباد —
دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی بدھ کو ذیا بیطس کا دن منایا گیا اور اس سلسلے میں عوام میں اس خطرناک بیماری سے متعلق آگاہی کے لیے سرکاری اور غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے سمینار اور دیگر تقاریب کا انعقاد کیا گیا۔
ذیابیطس کے مریضوں سے متعلق بین الاقوامی فیڈریشن (آئی ڈی ایف) کے مطابق دنیا بھر میں اس مرض کے شکار افراد کی تعداد تقریباً تین کروڑ ہے۔
پاکستان دنیا کا ساتواں بڑا ملک ہے جہاں سب سے زیادہ ذیابیطس مریض ہیں، ملک میں اس مرض کے شکار افراد کی تعداد سترہ لاکھ ہے۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بیماری کے موجودہ شرح کے پھیلاؤ کو دیکھا جانے تو 2030ء تک اس خطرناک ہیماری میں مبتلا افراد کی تعداد دو گنا ہو جائے گی۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ذبابیطس کے ڈائریکٹر ڈاکٹر زمان شیخ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ملک میں اس مرض کے پھیلاؤ کی شرح ساڑھے سات فیصد سے بھی زائد ہے جو کہ انتہائی تشویش ناک ہے۔
انہوں نے کہا کہ غیر صحت مندانہ طرز زندگی اور نا مناسب غذا اس بیماری کے پھیلاؤ کی بڑی وجوہات ہیں۔
’’وزن ہر ایک کا بڑھ رہا ہے اور ورزش کا نام و نشان نہیں۔ یہاں تک کہ بچوں میں ورزش کا رجحان ختم ہو جا رہا ہے۔ وہ ٹی وی اور ویڈیو گیمز کی طرف زیادہ راغب ہیں۔‘‘
ڈاکٹر شیخ نے ذیا بیطس کو ’’خاموش ہیماری‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کے شکار بیشتر افراد اکثر اس وقت معالج سے رجوع کرتے ہیں جب بیماری اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے۔
’’یہ انسان کے تمام اہم اعضاء پر حملہ آور ہوتی ہے جس میں دل، گردے، آنکھیں، پاؤں وغیرہ شامل ہیں۔ اس کا حملہ بہت خاموشی سے ہوتا ہے کہ مثلا اگر آنکھ کی بینائی چلی جائے یا گردے ناکارہ ہوجائیں تو اس سے پہلے آنکھ یا گردے میں کوئی درد نہیں ہوتا اور یہی وجہ ہے کہ لوگ لاپروائی کرتے ہوئے ڈاکٹر کے پاس شروع میں نہیں جاتے۔‘‘
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ذیا بیطس سے بچاؤ کے لیے ضروری ہے کہ لوگ غیر صحت مندانہ طرز زندگی کو ترک کرتے ہوئے سادہ غذا اور ورزش کو معمول بنائیں۔
ذیابیطس کے مریضوں سے متعلق بین الاقوامی فیڈریشن (آئی ڈی ایف) کے مطابق دنیا بھر میں اس مرض کے شکار افراد کی تعداد تقریباً تین کروڑ ہے۔
پاکستان دنیا کا ساتواں بڑا ملک ہے جہاں سب سے زیادہ ذیابیطس مریض ہیں، ملک میں اس مرض کے شکار افراد کی تعداد سترہ لاکھ ہے۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بیماری کے موجودہ شرح کے پھیلاؤ کو دیکھا جانے تو 2030ء تک اس خطرناک ہیماری میں مبتلا افراد کی تعداد دو گنا ہو جائے گی۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ذبابیطس کے ڈائریکٹر ڈاکٹر زمان شیخ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ملک میں اس مرض کے پھیلاؤ کی شرح ساڑھے سات فیصد سے بھی زائد ہے جو کہ انتہائی تشویش ناک ہے۔
انہوں نے کہا کہ غیر صحت مندانہ طرز زندگی اور نا مناسب غذا اس بیماری کے پھیلاؤ کی بڑی وجوہات ہیں۔
’’وزن ہر ایک کا بڑھ رہا ہے اور ورزش کا نام و نشان نہیں۔ یہاں تک کہ بچوں میں ورزش کا رجحان ختم ہو جا رہا ہے۔ وہ ٹی وی اور ویڈیو گیمز کی طرف زیادہ راغب ہیں۔‘‘
ڈاکٹر شیخ نے ذیا بیطس کو ’’خاموش ہیماری‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کے شکار بیشتر افراد اکثر اس وقت معالج سے رجوع کرتے ہیں جب بیماری اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے۔
’’یہ انسان کے تمام اہم اعضاء پر حملہ آور ہوتی ہے جس میں دل، گردے، آنکھیں، پاؤں وغیرہ شامل ہیں۔ اس کا حملہ بہت خاموشی سے ہوتا ہے کہ مثلا اگر آنکھ کی بینائی چلی جائے یا گردے ناکارہ ہوجائیں تو اس سے پہلے آنکھ یا گردے میں کوئی درد نہیں ہوتا اور یہی وجہ ہے کہ لوگ لاپروائی کرتے ہوئے ڈاکٹر کے پاس شروع میں نہیں جاتے۔‘‘
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ذیا بیطس سے بچاؤ کے لیے ضروری ہے کہ لوگ غیر صحت مندانہ طرز زندگی کو ترک کرتے ہوئے سادہ غذا اور ورزش کو معمول بنائیں۔