امریکی ریاست ٹیکساس میں مقیم پاکستانی ڈاکٹر مہوش مارٹن کی اس وقت خوشی کی انتہا نہ رہی جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ ان کی تحقیق پر مبنی مضمون کو ایک بڑے امریکی میڈیکل میگزین نے شائع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
مہوش، جو چند برس پہلے پاکستان سے امریکہ آئیں، اب تک سات بین الااقوامی تحقیقی منصوبوں میں شرکت کر چکی ہیں، جن میں کووڈ نائنٹین کے امراض قلب، شوگر اور موٹاپے میں مبتلا لوگوں پر ممکنہ اثرات جیسے اہم موضوعات شامل ہیں۔
اس کے علاوہ دل اور دماغ کے امراض میں مبتلا لوگوں کے حوالے سے بھی ڈاکٹر مہوش کا ایک مشترکہ آرٹیکل امرکین ہارٹ ایسوسی ایشن جنرل میں شائع ہو چکا ہے۔
جرنل آف میڈیکل وائرالوجی میں چھپنے والے مضمون میں ڈاکٹر مہوش اور ان کے ساتھیوں کی تحقیق کے مطابق فربہ افراد کو کووڈ نائنٹین سے خطرات زیادہ ہیں۔ اس سلسلے میں مستند معلومات پر مبنی ڈیٹا کے جائزے نے ظاہر کیا کہ ایسے افراد کو عام لوگوں کے مقابلے میں کووڈ نائنٹین کی زیادہ پیجیدگیاں لاحق ہو سکتی ہیں۔
ان پیچیدگیوں میں سانس لینے میں دشواری کی شکایات زیادہ عام ہیں جو کرونا وائرس سے پھیلنے والے اس مرض کی ایک علامت ہے۔ لیکن موٹاپے کے شکار لوگوں میں اس کی شدت زیادہ پائی گئی ہے اور یہ ان کے لیے مہلک بھی ثابت ہو سکتی ہے۔
"ہماری تحقیق یہ ظاہر کرتی ہے کہ ایسے افراد کو زیادہ محتاط رہنا چاہیے، ٹیسٹ کروانا چاہییں تاکہ اس مرض کی جلد از جلد تشخیص ہو سکے اور اگر موٹاپے کے شکار لوگ اس وبائی مرض میں مبتلا ہو جائیں تو ان کا فوری علاج کیا جانا چاہیے۔"
حالیہ عشروں میں دنیا میں موٹاپے کے شکار لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور 2019 کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں یہ مرض پچاس لاکھ سے زائد افراد کی موت کا سبب بنا۔ امریکہ میں موٹاپے کے شکار لوگوں کا تناسب 42 اعشاریہ 24 فیصد تک جا پہنچا ہے۔
اسی طرح مہوش مارٹن نے امراض قلب اور شوگر کے امراض میں مبتلا لوگوں پر کووڈ نائٹین کے اثرات کے متعلق تحقیق میں بھی حصہ لیا۔ مہوش اس تحقیق کے لکھاریوں میں شامل ہیں جسے گزشتہ ہفتے کیوریس میڈیکل جرنل نے چھاپا۔ اس تحقیق نے ظاہر کیا کہ دل اور شوگر کے امراض میں مبتلا لوگوں کو کووڈنائنٹین سے زیادہ خطرات کا سامنا ہو سکتا ہے۔
ڈاکٹر مہوش، جنہوں نے لاہور سے ایم بی بی ایس کا امتحان پاس کیا اور امریکہ میں مزید تعلیم حاصل کر رہی ہیں، کہتی ہیں کہ انہیں تحقیق سے زمانہ طالب علمی سے ہی لگاؤ رہا ہے۔
"میں سمجھتی ہوں کہ اتنے بڑے بحران میں یہ میرا فرض بنتا ہے کہ میں اس مہلک بیماری اور اس کے مختلف افراد پر اثرات کے متعلق کھوج لگا کر اس کے متعلق معلومات حاصل کر سکوں کیونکہ ابھی اس وائرس اور اس سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کے متعلق بہت کچھ جاننے کی ضرورت ہے۔"
مہوش، جن کے والد بھی پاکستان میں ڈاکٹر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں، کہتی ہیں کہ ان کے لیے اس وقت اور توجہ طلب تحقیقی کام میں حصہ لینا بہت ضروری تھا۔ اس تحقیق میں بھارت، کینیڈا، اور امریکہ سے تعلق رکھنےوالے ڈاکٹروں نے شرکت کی۔
میڈیکل شعبے اور پاکستانی امریکی برادری کے علاوہ لوگوں نے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز پر بھی ڈاکٹر مہوش کی کاوشوں کی تعریف کی ہے۔
"میرے لیے یہ بات بہت اہم ہے کہ میں اس بین الاقوامی تحقیقی کام میں پاکستانی اور امریکی رہائشی کے طور پر شریک ہوئی۔ اور اب اس بحران میں اس مرض کے سمجھنے کی کوششوں میں کچھ کردار ادا کر سکی۔"