اسلام آباد —
بھارتی سرحدی فوج کی طرف سے سرحد پار پاکستانی علاقے میں میبنہ فائرنگ اور گولہ باری سے ایک شخص ہلاک اور دو زخمی ہو گئے ہیں۔
پاکستانی عسکری ذرائع کے مطابق بھارتی فوج نے سیالکوٹ کے ہڑپال سیکٹر میں ہلکے اور بھاری ہتھیاروں سے فائرنگ کی۔
فائرنگ سے سجاد نامی ایک شخص ہلاک جب کہ دو شہری زخمی ہو گئے۔
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر اور پاکستان کے درمیان عارضی سرحد یعنی ورکنگ باؤنڈری پر حالیہ دنوں میں مہلک جھڑپ کا یہ دوسرا واقعہ ہے۔ اس علاقے کے چپراڑ سیکٹر میں جمعرات کو بھارتی بی ایس ایف کی فائرنگ سے نیم فوجی سکیورٹی فورس پاکستان رینجرز کا ایک اہلکار ہلاک ہو گیا تھا۔
دونوں ممالک جھڑپوں میں پہل کرنے کا الزام ایک دوسرے پر عائد کرتے ہیں۔ مبصرین ان جھڑپوں کو کشمیر کو دو حصوں میں منقسم کرنے والی متنازع سرحد یعنی لائن آف کنٹرول پر اگست کے اوائل سے جاری کشیدگی کا حصہ قرار دے رہے ہیں، جن میں پاکستانی کشمیر میں فوج کے اہلکاروں کے علاوہ متعدد شہری بھی بھارتی فائرنگ اور گولہ باری کی زد میں آ کر ہلاک ہو چکے ہیں۔
دفاعی تجزیہ نگار حسن عسکری رضوی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ لائن آف کنٹرول یا ورکنگ باؤنڈری پر کشیدگی پاک بھارت تعلقات کو معمول پر لانے کی کوششوں میں خلل ڈالتی ہے اور یہ حقیقت جانتے ہوئے بھی دونوں جانب سے ایسی صورت حال سے نمٹنے کے لیے وضع کردہ طریقہ کار پر عمل درآمد میں تاخیر اُن کے بقول سمجھ سے باہر ہے۔
’’بڑے پائیدار طریقہ کار ہیں، ماضی میں انھوں نے استعمال کیے ہیں، اب لگتا یہ ہے کہ ہندوستان اور پاکستان ان طریقہ کار کو استعمال ہی نہیں کرنا چاہتے اور وقتاً فوقتاً فائرنگ چلتی رہتی ہے اور اس میں ہمیں سمجھ میں نہیں آتا کہ دونوں ممالک کی افواج کی نیت کیا ہے لگتا یہ ہے کہ غالباً وہ بہتر تعلقات کے معاملے کو موخر کروانا چاہتے ہیں۔‘‘
گزشتہ کئی برسوں سے نافذ العمل طریقہ کار سے حسن عسکری کی مراد بھارتی اور پاکستانی افواج کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز (ڈی جی ایم اوز) کے درمیان قائم ہاٹ لائن تھی، جس کو سرحد پر فائربندی کے معاہدے کی خلاف ورزی کی صورت میں استعمال کیا جاتا ہے۔
بھارت اور پاکستان کے وزرائے اعظم نے گزشتہ ماہ کے اواخر میں نیو یارک میں ہوئی ملاقات میں ڈی جی ایم اوز کے درمیان رابطے کا عندیہ بھی دیا اور بھارتی وزیرِ خارجہ سلمان خورشید نے ہفتہ کو کہا کہ یہ ملاقات جلد ہوگی، تاہم اُنھوں نے اس سلسلے میں کسی تاریخ کا ذکر نہیں کیا۔
دفاعی و سیاسی اُمور سے متعلق تجزیہ کار سلطان محمود حالی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا سرحدی کشیدگی کے دیرپا حل کے لیے دونوں ممالک کی حکومتوں کے درمیان اعلیٰ سطحی رابطے ناگزیر ہیں۔
’’ڈی جی ایم اوز کی سطح پر صرف یہی بات ہو سکتی ہے کہ فائربندی کی خلاف ورزی کس نے کی ہے اصل گفتگو تو خارجہ اُمور سے متعلق بھارت اور پاکستان کی وزارتوں کے درمیان گفتگو ہونی چاہیئے اور پھر اس کو اعلیٰ سطح کی جانب لے کر جانا چاہیئے۔‘‘
سلطان محمود حالی نے کہا کہ 11 مئی کے انتخابات کے بعد اقتدار سنبھالنے والی مسلم لیگ (ن) کی حکومت پاک بھارت تعلقات کو معمول پر لانے کو خصوصی اہمیت دے رہی ہے اور اُمید کرنی چاہیئے کہ یہ کوششیں کامیاب ہوں گی۔
پاکستانی عسکری ذرائع کے مطابق بھارتی فوج نے سیالکوٹ کے ہڑپال سیکٹر میں ہلکے اور بھاری ہتھیاروں سے فائرنگ کی۔
فائرنگ سے سجاد نامی ایک شخص ہلاک جب کہ دو شہری زخمی ہو گئے۔
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر اور پاکستان کے درمیان عارضی سرحد یعنی ورکنگ باؤنڈری پر حالیہ دنوں میں مہلک جھڑپ کا یہ دوسرا واقعہ ہے۔ اس علاقے کے چپراڑ سیکٹر میں جمعرات کو بھارتی بی ایس ایف کی فائرنگ سے نیم فوجی سکیورٹی فورس پاکستان رینجرز کا ایک اہلکار ہلاک ہو گیا تھا۔
دونوں ممالک جھڑپوں میں پہل کرنے کا الزام ایک دوسرے پر عائد کرتے ہیں۔ مبصرین ان جھڑپوں کو کشمیر کو دو حصوں میں منقسم کرنے والی متنازع سرحد یعنی لائن آف کنٹرول پر اگست کے اوائل سے جاری کشیدگی کا حصہ قرار دے رہے ہیں، جن میں پاکستانی کشمیر میں فوج کے اہلکاروں کے علاوہ متعدد شہری بھی بھارتی فائرنگ اور گولہ باری کی زد میں آ کر ہلاک ہو چکے ہیں۔
دفاعی تجزیہ نگار حسن عسکری رضوی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ لائن آف کنٹرول یا ورکنگ باؤنڈری پر کشیدگی پاک بھارت تعلقات کو معمول پر لانے کی کوششوں میں خلل ڈالتی ہے اور یہ حقیقت جانتے ہوئے بھی دونوں جانب سے ایسی صورت حال سے نمٹنے کے لیے وضع کردہ طریقہ کار پر عمل درآمد میں تاخیر اُن کے بقول سمجھ سے باہر ہے۔
’’بڑے پائیدار طریقہ کار ہیں، ماضی میں انھوں نے استعمال کیے ہیں، اب لگتا یہ ہے کہ ہندوستان اور پاکستان ان طریقہ کار کو استعمال ہی نہیں کرنا چاہتے اور وقتاً فوقتاً فائرنگ چلتی رہتی ہے اور اس میں ہمیں سمجھ میں نہیں آتا کہ دونوں ممالک کی افواج کی نیت کیا ہے لگتا یہ ہے کہ غالباً وہ بہتر تعلقات کے معاملے کو موخر کروانا چاہتے ہیں۔‘‘
گزشتہ کئی برسوں سے نافذ العمل طریقہ کار سے حسن عسکری کی مراد بھارتی اور پاکستانی افواج کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز (ڈی جی ایم اوز) کے درمیان قائم ہاٹ لائن تھی، جس کو سرحد پر فائربندی کے معاہدے کی خلاف ورزی کی صورت میں استعمال کیا جاتا ہے۔
بھارت اور پاکستان کے وزرائے اعظم نے گزشتہ ماہ کے اواخر میں نیو یارک میں ہوئی ملاقات میں ڈی جی ایم اوز کے درمیان رابطے کا عندیہ بھی دیا اور بھارتی وزیرِ خارجہ سلمان خورشید نے ہفتہ کو کہا کہ یہ ملاقات جلد ہوگی، تاہم اُنھوں نے اس سلسلے میں کسی تاریخ کا ذکر نہیں کیا۔
دفاعی و سیاسی اُمور سے متعلق تجزیہ کار سلطان محمود حالی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا سرحدی کشیدگی کے دیرپا حل کے لیے دونوں ممالک کی حکومتوں کے درمیان اعلیٰ سطحی رابطے ناگزیر ہیں۔
’’ڈی جی ایم اوز کی سطح پر صرف یہی بات ہو سکتی ہے کہ فائربندی کی خلاف ورزی کس نے کی ہے اصل گفتگو تو خارجہ اُمور سے متعلق بھارت اور پاکستان کی وزارتوں کے درمیان گفتگو ہونی چاہیئے اور پھر اس کو اعلیٰ سطح کی جانب لے کر جانا چاہیئے۔‘‘
سلطان محمود حالی نے کہا کہ 11 مئی کے انتخابات کے بعد اقتدار سنبھالنے والی مسلم لیگ (ن) کی حکومت پاک بھارت تعلقات کو معمول پر لانے کو خصوصی اہمیت دے رہی ہے اور اُمید کرنی چاہیئے کہ یہ کوششیں کامیاب ہوں گی۔