رسائی کے لنکس

طورخم بارڈ پر 10 ہزار سے زائد پاکستانی روپوں کی منتقلی پر پابندی


Pakistan border
Pakistan border

افغانستان اور پاکستان کی سرحد طورخم کے ذریعے 10 ہزار سے زائد پاکستانی روپوں کی ترسیل پر پابندی عائد ہونے سے دونوں ممالک کا تاجر طبقہ اور علاج کی غرض سے آنے والے افراد پریشانی سے دوچار ہیں۔

افغانستان کی حکومت نے چند روز قبل پاکستان کے سرحد سے ملحقہ جلال آباد شہر اور دیگر علاقوں میں پاکستانی کرنسی میں لین دین کرنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔

اس پابندی کے بعد چند سرکاری اہل کاروں نے لین دین میں استعمال ہونے والی پاکستانی کرنسی ضبط کر کے اسے جلا ڈالا تھا۔ اس واقعے کے بعد سرحدی حکام نے افغانستان سے پاکستان میں داخل ہونے والوں کے لیے صرف 10 ہزار روپے رکھنے کی حد مقرر کر دی ہے۔

حکومت کے فیصلے کے بعد کابل، جلال آباد اور دیگر شہروں میں عرصہ دراز سے موجود پاکستانی تاجروں نے پاکستانی روپے طورخم کے ذریعے پاکستان منتقل کرنے کی کوشش کی لیکن اُنہیں اجازت نہیں دی گئی۔

تاجروں کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے اُن کے کروڑوں روپے ضائع ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔

طورخم میں دونوں ممالک کے درمیان درآمدات اور برآمدات کے تاجر قاری نظیم گل شینواری نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پاکستان سے افغانستان جانے والوں کو 10 ہزار روپے سے زائد روپوں کے علاوہ غیر ملکی کرنسی لیجانے پر بھی پابندی ہے۔

جس کی وجہ سے ان کے بقول دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تجارت پر منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔

طورخم میں ایک کسٹم کلیرنگ ایجنٹ ابلان علی نے بھی تصدیق کی کہ 10 ہزار روپوں سے زیادہ لانے اور لیجانے پر پابندی سے عام لوگوں جو دونوں ممالک کے درمیان علاج معالجہ اور دوستوں اور عزیز و اقارب سے ملنے آتے ہیں کو مشکلات کا سامنا ہے۔

پشاور کے کرنسی مارکیٹ میں ایک تاجر کا کہنا ہے کہ حکومتِ پاکستان کو چاہیے کہ وہ اس معاملے میں مداخلت کرے اور افغان حکومت پر زور دے کہ وہ پاکستانی تاجروں کو رقوم پاکستان منتقل کرنے کی اجازت دے۔

افغانستان سے پاکستان داخل ہونے والوں کے لیے غیر ملکی کرنسی لانے پر کوئی پابندی نہیں ہے مگر اس کے لیے معقول وجہ بتانا لازمی ہے۔

خیبر پختونخوا کے وزیر اطلاعات شوکت علی یوسفزئی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ افغانستان کے ساتھ دو طرفہ تجارت کا سب سے زیادہ فائدہ خیبر پختونخوا ہی کو ہے۔ لہذٰا صوبائی حکومت اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے تاجروں سے رابطہ کرے گی۔

عرصہ دراز سے پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں کے علاوہ پشاور، کوئٹہ، کابل اور جلال آباد میں دونوں ممالک کے کرنسی میں لین دین کا سلسلہ جاری ہے۔

حتیٰ کہ افغانستان میں جنگ اور داخلی محاذ آرائی کے دوران پشاور کے چوک یاد گار کے کرنسی مارکیٹ کو افغانستان کے لیے اسٹاک ایکس چینج کا درجہ حاصل تھا۔

دونوں ممالک کے ہزاروں تاجر اور دیگر کاروباری شعبوں سے وابستہ لوگوں کے دونوں ممالک میں تجارتی اور کاروباری مراکز اور دفاتر قائم ہیں۔ مگر دونوں ممالک کے تعلقات میں تناؤ کے باعث یہ طبقات پریشان ہیں۔

XS
SM
MD
LG